درد سینے میں ہوا نوحہ سرا تیرے بعد
دشتِ ہجراں میں نہ سایہ نہ صدا تیرے بعد
کتنے تنہا ہیں تیرے آبلہ پا تیرے بعد
کوئی پیغام نہ دلدار نوا تیرے بعد
خاک اڑاتی ہوئی گزری ہے صبا تیرے بعد
لب پے اک حرف طلب تھا نہ رہا تیرے بعد
دل میں تاثیر کی خواہش نہ دعا تیرے بعد
عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد
دھوپ عارض کی نہ زلفوں کہ گھٹا تیرے بعد
ہجر کی رت ہے کہ محبس کی فضا تیرے بعد
لئے پھرتی ہے سرِ کوئے جفا تیرے بعد
پرچمِ تارِ گریباں کو ہوا تیرے بعد
پیرہن اپنا سلامت نہ قبا تیرے بعد
بس وہی ہم وہی صحرا کی ردا تیرے بعد
نِکہت و نے ہے تہِ دستِ قضا تیرے بعد
شاخِ جاں پر کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعد
دل نہ مہتاب سے الجھا نہ جلا تیرے بعد
ایک جگنو تھا کہ چپ چاپ بجھا تیرے بعد
درد سینے میں ہوا نوحہ سرا تیرے بعد
دل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد
کون رنگوں کے بھنور کیسی حنا تیرے بعد
اپنا خوں اپنی ہتھیلی پہ سجا تیرے بعد
ایک ہم ہیں کہ ہیں بے برگ و نوا تیرے بعد
ورنہ آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعد
اک قیامت کی خراشیں مرے چہرے پہ سجیں
ایک محشر مرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
تجھ سے بچھڑا تو مرجھا کے ہوا بُرد ہُوا
کون دیتا مجھے کھلنے کی دعا تیرے بعد
اے فلک ناز مری خاک نشانی تیری
میں نے مٹی پہ ترا نام لکھا تیرے بعد
تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد
یہ الگ بات ہے کہ افشا نہ ہوا تو ورنہ
میں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعد
ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے
کوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد
بجھتے جاتے ہیں خد و خال مناظر آفاق
پھیلتا جاتا ہے خواہش کا خلا تیرے بعد
میری دکھتی ہوئی آنکھوں سے گواہی لینا
میں نے سوچا تجھے اپنے سے سوا تیرے بعد
سہہ لیا دل نے ترے بعد ملامت کا عذاب
ورنہ چبھتی ہے رگِ جاں میں ہوا تیرے بعد
جانِ محسن مرا حاصِل یہی مُبہم سطریں
شعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد
محسن نقوی
Bookmarks