انٹرنیٹ سرچ انجنز کے بغیر یقینا ادھورا ہے۔ گوگل اور یاہو! آپ کی مطلوبہ معلومات سیکنڈز میں لاکر آپ کو پیش کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات انوکھی ہی ہے کہ اب بھی معلومات کی ایک بڑی تعداد ان سرچ انجنز کی رسائی میں نہیں ہے یا پھر اسے سرچ ریزلٹس میں دکھانا ممکن نہیں۔ یہ معلومات فلیش کی فائلوں میں موجود ہے جنھیں پڑھنا سرچ انجنز کے لئے ممکن نہیں اور نہ ہی وہ انہیں سرچ ریزلٹس میں دکھا پاتے ہیں۔ تاہم اب شاید یہ خرابی بھی دور ہوجائے کیونکہ ایڈوب نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ان سرچ انجنز کو ایک خاص فلیش اینی میشن پلیئر فراہم کیا ہے جو فلیش اینی میشن میں موجود متن اور روابط کو پڑھ سکتا ہے۔ اس سے پہلے ویب ڈیویلپرز کو ظاہری طور پر خوبصورت یا پھر سرچ انجنز میں اچھے رینک کی حامل ویب سائٹ ، ان دونوں میں سے کسی ایک خوبی کو چننا ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ دونوں خوبیاں ایک ساتھ استعمال کی جاسکتی ہیں۔
ایڈوب کے سینئر پروڈکٹ منیجر برائے فلیش پلیئر کے مطابق یہ نیا سافٹ ویئر فلیش فائلز کو انڈیکس کرسکتا ہے لیکن انہیں چلا نہیں سکتا۔ انٹرنیٹ صارفین کو اس نئے سافٹ ویئر کو ڈاﺅن لوڈ کرنے کی ضرورت نہیںاور نہ ہی فلیش اینی میشن بنانے والوں کو اپنے طریقہ کار میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن اینڈ یوزر اب انٹرنیٹ پر تلاش سے بہتر نتائج حاصل کرسکے گا۔ ممکن ہے جو چیزآپ کو ضرورت ہو وہ کسی شاک ویو فائل میں محفوظ ہو۔ اب آپ اسے ڈھونڈ سکتے ہیں۔
اس وقت گوگل نے تقریباً 71 ملین فلیش فائلز کو انڈیکس کررکھا ہے۔ ایڈوب کے نئے سافٹ ویئر کے اجراءسے پہلے بھی سرچ انجنز فلیش فائلز سے ساکن متن اور روابط الگ کرسکتے تھے۔ لیکن کسی فلیش میں بنی ویب سائٹ پر کوئی متن کس ویب پیج پر ہے، یہ جاننا سرچ انجنز کے لئے ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے سرچ انجنز فلیش اینی میشن میں موجود متن کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ نیز، سرچ انجن حرکت پذیر متن کی شناخت بھی نہیں کرسکتے تھے۔
ایڈوب نے گوگل اور یاہو! کو جو نئی فلیش پلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی ہے وہ موجودہ اسپائیڈرز جو ویب پیجز کو انڈیکس کرتے ہیں، کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اسپائیڈرز کو فلیش اینی میشن لوڈ کرنے اور اس میں موجود تمام متن اور روابط کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ کسی بٹن یا ٹیب پر کلک کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ ایڈوب کے ان اقدامات میں مائیکروسافٹ شامل نہیں جس نے فلیش کے مقابلے میں اپنی ٹیکنالوجی سلو لائٹ متعارف کروائی تھی۔
Bookmarks