یہ میرا وجود ہے بے سبب، یہ میری حیات سراب ہے
جو میں ہوں نہ ہوں تو ہے ایک سا میری روح زیر عتاب ہے
مجھے تیرے وصل سے کیا ملا، تیرا دل تو میرا نہ بن سکا
جو نہیں ملا تو تھا مضطرب، جو تو مل گیا تو عذاب ہے
تیرے غم میں آنکھ جو نم ہوئی مئے حسن اور بہم ہوئی
مجھے لوگ کہتے ہیں دیکھ کر، تیسرا حسن بھیگا گلاب ہے
یہ کنول یہ نور یہ کہکشاں، مجھے ایسے ناموں کا فائدہ
تیرے بن فضول ہے زندگی تیرے بن عبث یہ شباب ہے
کبھی ہنس لیا کبھی رو دیا، تجھے پا لیا تجھے کھو دیا
یہی الجھنیں یہ یہ ادھیڑ بن میرے رات دن کا نصاب ہے
چلو بات کرتے ہیں مختصر، میرا ایک آخری کام کر
کوئی نظم میرے بھی نام کر میرے دل کی کوری کتاب ہے
Bookmarks