السلام علیکم!
دوستو اھل بیت کا لفظ آپ حضرات نے بارھا سنا اور پڑھا۔ سوچا اس کی کچھ تحقیق کر لی جائے‘ اور دیکھا جائے کہ جب اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاظ سے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کا کیا معنی ہے۔
وہ آیت جس کی تفسیر میں دو گروہوں میں تنازع ہے اس سے پہلے ہم اھل بیت کا لفظ قرآن میں ایک اور جگہ دیکھتے ہیں کیونکہ وھاں کوئی تنازع نہیں ہے۔
قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَـٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ ﴿٧٢﴾ قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ﴿٧٣﴾ هود
اس نے کہا اے ہے میرے بچہ ہوگا؟ میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے (٧٢) انہوں نے کہا کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے (٧٣) (جالندھری)
یہاں ابراہیم علیہ السلام کی بات ہو رہی ہے کہ فرشتے نے بیٹے کی خوشخبری دی۔ مذکورہ آیت میں ان کی زوجہ کی بات کا ذکر ہے کہ میرے اولاد کیسے ہو گی‘ تو فرشتے نے کہا کہ اللہ کی برکت ہو تم پر اے اہل بیت۔ اب اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اب تک ابراہیم علیہ السلام کا نہ کوئی بیٹا تھا نہ بیٹی۔ اور لفظ ‘علیکم‘ کے مخاطب ابراہیم علیہ السلام اور ان کی زوجہ ہیں۔
آپ کسی عرب سے بات کر لیں وہ بھی لفظ اہل بیت کا معنی یہی لے گا‘ قرآن میں بھی یہی معنی لیا گیا ہے‘ یعنی کسی آدمی کی بیوی بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے اور بیٹیاں تو شامل ہیں یہ تو متفق علیہ ہے تمام کے نزدیک‘ جبکہ آیت میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ بیوی ضرور شامل ہے۔
اب اس آیت پر آتے ہیں جس پر تنازع کیا جاتا ہے۔
إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا - الأحزاب - ٣٣
اے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے (جالندھری)
پچھلی آیات پڑھیں اللہ تعالٰی ازواج مطھرات سے مخاطب ہیں‘ بعین ایسے ہی جیسا کہ پہلے پیش کی گئی آیات میں فرشتے ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ سے مخاطب ہیں۔ آپ سورہ احزاب شروع سے آخر تک پڑھ جائیے‘ کسی عرب مسلمان سے پڑھوا لیں یا غیر مسلم سے جو کہ تنازع سے واقف نہ ہو‘ وہ یہی کہے گا کہ یہاں مراد نبی کی بیویاں‘ بیٹیاں اور بیٹے ہیں (یہ اور بات ہے کہ نبی کا کوئی صلبی بیٹا زندہ نہیں رھا)۔
یہاں تک قرآن کی بات ہو گئی۔ محض قرآن اور لغت کی بات کریں تو آپ اس سے بڑھ کر اہل بیت کا اور کوئی معنی نہیں نکال سکتے۔
حدیث کی طرف آنے سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لیں۔ اگر فرض کریں کسی جگہ میلہ لگا ہو ٹکٹ کے ساتھ اور آپ وھاں جائیں بمع اہل و عیال اور اپنے ایک دور کے کسی رشتہ دار کے ساتھ‘ دروازے پر آدمی آپ کو روک لے کہ صرف اہل و عیال ساتھ لے جا سکتے ہیں‘ آپ اس آدمی سے درخواست کریں کہ یہ (یعنی رشتہ دار) بھی ساتھ ہے اور وہ آدمی آپ کی درخواست پر اسے بھی اندر جانے دے تو اس سے وہ رشتہ دار حکما تو آپ کے اہل و عیال میں شامل ہو جائے گا کیونکہ اسے شامل مان لیا گیا تبھی تو اندر جانے دیا لیکن حقیقتا اہل و عیال میں شامل نہیں ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جو اہل و عیال میں شامل نہیں اس کا خاص طور پر بتانا پڑا اور جو شامل تھے ان کا خصوصی طور پر نہیں بتانا پڑتا۔ آپ غور کر لیجئے جب بھی کسی معنی میں آپ وسعت چاہ رہے ہوں گے وہاں صرف زائد بات کو ذکر کریں گے‘ جو اس کے معنی میں پہلے ہی شامل ہے اسے ذکر نہیں کریں گے کیونکہ وہ تو پہلے ہی موجود ہے۔
پس اب آپ ان تمام احادیث کو دیکھ لیں جن میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی‘ فاطمہ‘ حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو چادر تلے جمع کیا اور کہا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ کیا آیت کے نزول کے وقت اللہ جل شانہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں تھا کہ اہل بیت کا کیا مطلب ہے؟ یا عرب کیلئے یہ لفظ نیا تھا؟ یا آیت کے سیاق و سباق سے واضح نہیں تھا؟
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات سے محبت کی بنا پر اللہ تعالٰی سے درخواست کی کی انہیں (یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کو) بھی میرے اہل بیت میں شامل مانیں۔
پس یہ عقیدہ بن گیا کہ یہ آیت جس سے فورا معلوم ہو جاتا ہے کہ ازواج مطھرات اور بنات نبی اس آیت کا مدلول ہیں‘ اور مزید یہ کہ حدیث کی بنا پر علی اور حسنین رضی اللہ عنھم بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔
علی‘ فاطمہ‘ حسن و حسین رضی اللہ عنھم کے فضائل ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں اور انکار کرنے والے کو گمراہ مانتے ہیں‘ لیکن یہاں بات صرف یہ ہو رہی ہے کہ اہل بیت میں کون شامل ہے پس موضوع کو اسی کی حد تک رکھا گیا ہے‘ مزید یہ کہ نہ تیری نہ میری والی بات کی بلکہ قرآن اور حدیث کا براہ راست ذکر کیا
Bookmarks