السلام علیکم
ہمارے پیارے دین میں جھوٹ بولنے والے کو گناہ گار قرار دیا ہے
لیکن
تین مواقع پر جھوٹ بولنے والے کو
گناہ گار
قرار نہیں دیا۔
47 - صلہ رحمی کا بیان : (223)
جھوٹ بولنے کی حرمت اور اس کے جواز کی صورتوں کے بیان میں
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَکَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ اللَّاتِي بَايَعْنَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لَيْسَ الْکَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْئٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ کَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ الْحَرْبُ وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2133 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ 4
حرملہ بن یحیی ابن وہب، یونس حضرت ابن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے مجھے خبر دی ہے کہ ان کی والدہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ابتداء ٍہجرت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والوں میں سے تھیں وہ خبر دیتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ آدمی جھوٹا نہیں ہے کہ جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے اور اچھی بات کہتا ہے اور دوسرے کی طرف اچھی بات منسوب کرتا ہے ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں سے صرف تین موقعوں پر جھوٹ بولنے کا جواز سنا ہے (1) جنگ (2) لوگوں کے درمیان صلح کرتے وقت (3) آدمی کا اپنی بیوی سے بات کرتے وقت اور بیوی کا اپنے خاوند سے بات کرتے وقت۔
یہ حدیث بخاری شریف کے علاوہ اور بھی کتابوں میں درج ہے
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1939 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4921 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھوٹ بولنے سے مقصود يہ ہے كہ: آپس ميں محبت و مودت اور دائمى الفت پيدا كرنے كے ليے جھوٹ بولنا تا كہ خاندان كا شيرازہ نہ بكھرے.
مثلا خاوند اپنى بيوى سے كہتا ہو: تم تو ميرے ليے بہت قيمتى ہو.
يا پھر كہتا ہو: ميرے ليے تو تجھ سے زيادہ كوئى اور پيارا نہيں ہے.
يا پھر يہ كہے: ميرے ليے تو تم ہى سب عورتوں سے زيادہ خوبصورت ہو، اس طرح كے الفاظ كہے.
اس سے وہ جھوٹ مراد نہيں ہے جس حقوق مارنے كا باعث بنتا ہو، يا پھر واجبات و فرائض سے فرار ہونے كا باعث بنتا ہو.
فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:
" اس پر اتفاق ہے كہ خاوند اور بيوى كے حق ميں جھوٹ سے مراد يہ ہے كہ اس ميں نہ تو حق ساقط ہوتا ہو اور نہ ہى كسى دوسرے كا حق غصب ہوتا ہو " انتہى
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اسى طرح خاوند كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنا جس ميں محبت و الفت اور مودت پيدا ہوتى ہو مصلحت ميں سے، مثلا وہ بيوى سے كہے:
تم ميرے ليے بہت قيمتى ہو، اور تم سب عورتوں سے زيادہ ميرے ليے محبوب ہو، چاہے وہ اس ميں جھوٹا بھى ہو ليكن محبت و مودت اور دائمى الفت و پيار پيدا كرنے كے ليے اور پھر مصلحت بھى اس كى متقاضى ہے " انتہى
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1 / 1790 ).
ابن شھاب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لوگ جسے جھوٹ كہتے ہيں ميں نے انہيں تين جگہوں پر بولنے كى رخصت دى گئى ہے: جنگ ميں، اور لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے، اور آدمى كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنے ميں "
جنگ ميں جھوٹ بولنا يہ ہے كہ: وہ اپنى جانب سے قوت و طاقت ظاہر كرے، اور ايسى بات چيت كرے جس سے اس كے ساتھى اور فوجى طاقتور ہو جائيں، اور اپنے دشمن كے خلاف تدبير كرے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" الحرب خدعۃ "
جنگ دھوكے كا نام ہے "
ديكھيں: شرح السنۃ ( 13 / 119 ).
سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر كسى شخص نے كسى دوسرے شخص سے معذرت كى اور اسے راضى كرنے كے ليے وہ كلام ميں تبديلى كر كے اچھى كلام پيش كرتا ہے تو وہ جھوٹا نہيں كہلائيگا كيونكہ حديث ميں ہے:
" لوگوں كے مابين صلح كرانے والا شخص جھوٹا نہيں ہے"
ان كا كہنا ہے: چنانچہ اس دوسرے شخص كے مابين اصلاح كا ہونا دوسرے لوگوں ميں صلح كرانے سے افضل ہے.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ
اور عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔
آمین
جزاک اللہ
Bookmarks