وصیت سے کیا مراد ہے؟
علامہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی عمدۃُ القاری میں وصیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ تَمْلِیْکُ مُضَافٍ اِلٰی مَا بَعْدَ الْمَوْتِ‘‘ یعنی کسی کو اپنے مرنے کے بعد اپنے مال کا مالک بنانا ۔
(عمدۃ القاری، کتاب الوصایا، ۱۰/۳ )
بہارِ شریعت میں ہے :’’بطورِاحسان کسی کو اپنے مرنے کے بعد اپنے مال یا منفعت کا مالک بنانا وصیت کہلاتا ہے۔ وصیّت کرنا مستحب ہے جب کہ اس پر حقوقُ اللہ کی ادائیگی باقی نہ ہو،اگر اس پر حقوق اللہ کی ادائیگی باقی ہے جیسے اس پر کچھ نمازوں کا ادا کرنا باقی ہے یااس پر حج فرض تھا ادا نہ کیا یا روزہ رکھنا تھا نہ رکھا تو ایسی صورت میں ان کے لئے وصیّت کرنا واجب ہے۔
(ملخصاًبہارشریعت، ۳/۹۳۶، حصہ۱۹ )
وصیت کی اقسام
علامہ محمد اَمِیْن اِبنِ عَابِدِیْن شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی فتاویٰ شامی میں فرماتے ہیں : وصیت کی چار اقسام ہیں
واجب: فرائض و واجبات میں سے جن چیزوں کو ادا نہ کرسکا ان کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے مثلاً زکوٰۃ ادا نہیں کی یا حج نہیں کیا تو ان کے متعلق وصیت کرے (یا اس نے نمازیں اور روزے چھوڑدئیے تھے اور ان کی قضا نہیں کی تھی ان کے بارے میں وصیت کرے)یا مالی کفارے ادا نہیں کئے تھے ان کے لئے وصیت کرے اسی طرح بندوں کے جو حقوق ادا نہیں کر سکا ان کے متعلق وصیت کرے مثلاً کسی کا قرض دینا ہے جس کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں ، کسی کی امانت دینی ہے یاکسی کی کوئی چیز غصب کرلی تھی اس کو واپس کرنا ہے اس قسم کی وصیت کرنا واجب ہے ۔
مستحب: مدرسوں ، مساجد، علمائے کرام ، دینی طلبہ، غریب قرابت داروں اور دیگر امورِ خیر میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا مستحب ہے۔
مباح : اپنے رشتہ داروں اور غیروں میں سے امیروں کے لئے وصیت کرنا مباح ہے ۔
مکروہ : فاسق و فاجر لوگوں کے لئے وصیت کرنا مکروہ ہے ۔
(رد المحتار، ۱۰/۳۵۴، ملخصاً)
بہار شریعت میں ہے کہ: جس کے پاس تھوڑا مال ہو اس کے لئے افضل وصیت نہ کرنا ہے ۔
(بہار شریعت، ۳/۹۳۸، حصہ ۱۹)
وصیت لکھنا مستحب ہے
علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی شرح مسلم میں فرماتے ہیں : وصیت کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے لیکن ہمارا اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ وصیت مستحب ہے واجب نہیں۔ لیکن اگر انسان پر کسی کا قرض ہو یا کسی کا حق ہو یا امانت ہو تو اس کی وصیت کرنا لازم ہے۔ اگر انسان کے پاس وصیت کے لائق کوئی چیز ہو تو احتیاط اسی میں ہے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی ہو اور مستحب یہ ہے کہ وصیت جلدی لکھ لے اور اپنی تندرستی میں لکھے اور کسی کو گواہ بھی بنا لے ۔
(شرح مسلم للنووی، کتاب الوصیۃ،۶ /۷۴، الجزء الحادی عشر )
وصیت تہائی مال میں جاری ہوگی
علامہ بَدْرُالدِّیْن مَحْمُوْد بِنْ اَحْمَد عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی عُمْدَۃُ الْقَارِی میں حضرتِ سَیِّدُنا سَعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والی حدیث کے تحت فرماتے ہیں : جمہور فقہائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اس حدیثِ پاک کو مقدارِ وصیت کے بارے میں اصل قرار دیا ہے اور اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ وصیت ثُلُث(یعنی تہائی 1/3) مال سے مُتَجَاوِز (زیادہ) نہیں ہونی چاہیے ، علمائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلَام کے نزدیک ثُلُث ( تہائی مال) سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں بلکہ مستحب یہ ہے کہ ثُلُت مال سے کم وصیت کی جائے ۔
(عمدۃ القاری، کتاب الجنائز، باب رثاء النبی سعد بن خولۃ، ۶/ ۱۲۴،تحت الحدیث:۱۲۹۵)
بہارِ شریعت میں ہے:’’ادائیگیٔ قرض کے بعد وصیت کا نمبر آتا ہے۔ قرض کے بعد جو مال بچا ہو اس کے تہائی سے وصیتیں پوری کی جائیں گی۔ ہاں اگر سب وُرَثہ بالغ ہوں اور سب کے سب تہائی مال سے زائد سے وصیت پوری کرنے کی اجازت دے دیں تو جائز ہے۔
(بہارِ شریعت، ۳/۱۱۱۱، حصہ۲۰ )
Bookmarks