پاکستان میں سیاست کی رونق کبھی کم نہیں ہوئی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تو یہ انتہائی متاثر کن رہی۔ 16 مارچ کے دن میں نے دیکھا کہ لوگ جوق در جوق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر کا رخ کرر ہے تھے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی دوبارہ بحالی کا مسئلہ، جو شدت اختیار کر گیا تھا، بالآخر حل ہو گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے 'جبری ریٹائرمنٹ' کے دوسال بعد جسٹس چودھری دوبارہ اپنے منصب پر بحال ہو گئے ہیں۔

پاکستان کے متنوع معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ، نوجوان، بوڑھے، مرد، عورتیں، مذہبی اور سیکولر، امیر، غریب سب لوگ بلاتفریق چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ کے خوبصورت سبزہ زار میں جمع ہوگئے۔ اپنے مخصوص سیاہ پینٹ کوٹ یا واسکٹ پہنے ہوئے وکیلوں نے، جو اس انقلابی جمہوری تحریک کے روح رواں رہے تھے، بھنگڑے ڈالے اور فضا، آزادی اور انصاف کے حصول کے نعروں سے گونج اٹھی۔

جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے فتح کا یہ ایک جشن تھا اور پاکستان کے بارے میں دنیا کے لئے اس میں ایک مثبت پیغام بھی موجود تھا۔

نائن الیون کے بعد سے پاکستان کا نام مغرب کے ایک گہرے اور تاریک خوف کے مترادف بن چکا تھا: نیوکلیر ہتھیاروں سے لیس ایک ریاست، ایک مسلم اکثریتی معاشرہ، جو انتہائی جارہانہ اور مذہبی بنیاد پرستی کے رجحان سے متاثرہ بغاوت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے امریکہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی اربون ڈالر کی فوجی امداد کے لئے یہ ایک عمومی جواز پیش کیا جاتا ہے۔ (نیو امریکہ فاؤنڈیشن کے اندازے کے مطابق صرف دو ہزار چھ اور سات میں امریکہ نے تین اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی فوجی امداد پاکستان آرمی کو فراہم کی، جو اداراتی طور پر ایک کمزور ریاست کا طاقتور ترین ادارہ ہے۔)

پاکستان کے بارے میں یہ تاریک تصور یہاں ہونے والی مسلسل دہشت گردی سے اور پختہ ہو جاتا ہے— 2007 کے آخر میں ایک بڑے خودکش حملے میں مقبول ترین سیاستدان سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا قتل، اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں دہشت گردی، نومبر میں بھارت میں ممبئی حملوں کا پاکستان پر الزام، اس ماہ لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، اور اسی ہفتے لاہور میں پولیس اکیڈیمی پر ہونے والا حملہ۔

جسٹس چودھری کی ایک مقبول احتجاجی تحریک کے ذریعے بحالی، مغرب کے لئے اتنی ہی با معنی ہونی چاہئے جتنا با معنی ان کے لئے مسلم انتہا پسندوں کا تشدد ہے۔ وہ پہلے جج نہیں تھے جنہیں پاکستان کے کسی مطلق العنان حکمران نے برطرف کیا تھا۔ لیکن سابق غدّار صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ان کی برطرفی بے مثال عوامی احتجاج کا باعث بنی۔ بالآخر اجتجاج کرنے والے جیت گئے اور مشرف کو مستعفی ہونا پڑا۔

بے نظیر بھٹو شہید کا شوہر، زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بن کر سامنے آیا اور غیر متوقع طور پر مشرف کا متبادل بن گیا۔ اس نے افتخار چودھری کی حمایت میں جلسوں پر پابندی، اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری، پرائیویٹ نیوز چینلوں کی بندش کی کوشش، اور چیف جسٹس کو بحال کرنے سے انکار کر کے جلد ہی مشرف کی یاد دلا دی۔ پیر کے روز مشرف جیسے انجام سے دوچار ہونے کے خوف سے یا فوجی دنڈے کے ڈر سے، اسے بالآخر عوامی مطالبے کے سامنے سر جھکانا پڑ گیا۔

اس سارے معاملے میں امریکہ کا کردار اس کی غیر موجودگی سے واضح ہوا۔ امریکہ نے گزشتہ تین عشروں سے پاکستان آرمی کو بھاری امداد دینے کو ترجیح دی۔ معروف عسکری تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ آغا کے مطابق، فوجی حکمرانی کے طویل تجربے اور سیاست میں اشرافیہ کے ایک چھوٹے گروہ کے غلبے نے پاکستان میں جمہوری کلچر کی اداراتی نشونما کو دھندلا دیا ہے۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب 2007 میں وکیل اور عام شہری سڑکوں پر آئے تو پاکستان کے کلیدی مغربی اتحادیوں کی طرف سے زیادہ تر اجتماعی خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا۔ سابق امریکی صدر جارج بش تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے مشرف کو ایک بہترین دوست قرار دیا جو امریکہ کی مسلسل امداد کا حقدار تھا۔ اگرچہ امریکہ مسلم دنیا میں جمہوریت کے پھیلاؤ کی بات کرتا ہے لیکن اس نے اس مکمل عوامی جمہوری تحریک کی مدد کے لئے بظاہر کچھ نہیں کیا۔

حال ہی میں واشنگٹن سے کچھ مثبت اشارے ملنا شروع ہوئے ہیں۔ خارجہ امور کمیٹی کے چئرمین، سینیٹر جان کیری نے پاکستان کے لئے امریکہ کی غیر فوجی امداد کو تین گنا کرنے کا مطالبہ کیا ہے – اگلے پانچ سالوں میں تقریبا سات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر۔ تاہم مالی امداد سے زیادہ امریکی حکومت کو پاکستان کے لوگوں کی بات سننے کی ضرورت ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے پاکستان میں رائے عامہ جاننے کے سروے کرانے پر لاکھوں ڈالر خرچ کئے گئے لیکن ان کی طرف سے مقامی ذہن کو سمجھنے میں مکمل ناکامی سامنے آئی ہے۔ حال ہی میں اس کا مظاہرہ افغانستان اور پاکستان کے لئے اوبامہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کے اس بیان سے ہوا جس میں انہوں نے، سب لوگوں کو چھوڑ کر، زرداری کو چیف جسٹس کو بحال کرنے کے اس " مدبرانہ" فیصلے پر سراہا ہے۔

چیف جسٹس کے لئے ان کی تعریف کہاں ہے، جنہوں نے دو جابر حکمرانوں کا سامنا کیا؟ یا ان لاکھوں پاکستانیوں کے لئے توصیف کہاں ہے جنہوں نے مار پیٹ اور گرفتاریوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کی حمایت کی؟ عام پاکستانیوں کے لئے اس سے یہ معروف عام مطلب نکلتا ہے کہ امریکہ لوگوں کی نہیں بلکہ مطلق العنان حکمرانوں کی حمایت کرتا ہے۔

چودھری کی بحالی اور فتح سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ لیکن کام کرنے والے اور قابل احتساب اداروں کی اہمیت کا مظاہرہ کرنے سے ملک کے وکلاء نے ممکن ہے اس طویل راستے پر سفر کا آغاز کر دیا ہو جو ملک کو موجودہ جہنم سے نکال سکتا ہے۔

کیا مغرب دیکھ رہا ہے؟