بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
برائی کا چرچا مت کریں
لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَن ظُلِمَ
(برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے ۔ ( النساء : ١٤٨
تفسیر
شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ ، الا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو ۔
اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے ۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے ، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسرا ، اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دگنا بلکہ دس گنا بھی ہو سکتا ہے ۔
قرآن کے الفاظِ مذکورہ ، دونوں قسم کی برائیوں کے اظہار سے ممانعت کو شامل ہیں اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی شخص کو اس کی کردہ یا نا کردہ حرکت پر برا بھلا کہا جائے ۔
البتہ اس سے ایک استثناء ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کر سکتے ہو ۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے ۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں ۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ : مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے ۔ آپ (ﷺ) نے اس سے فرمایا : '' تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو ۔''
اُس نے ایسا ہی کیا۔
چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے وجہ پوچھتا ، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہگیر اس پر لعنت ملامت کرتا ۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کر لی اور آئیندہ کے لیے ایذا نہ پہنچانے کا فیصلہ کر لیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی ۔
( سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب : فی حق الجوار )
تفسیر احسن البیان ۔ مفسر : حافظ صلاح الدین یوسف
Bookmarks