قبر پرجو بھی (نیا) دن آتا ہے تو اس دن وہ کہتی ہے: ”میں غربت (پردیس) کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں اور میں کیڑوں (مکوڑوں) کا گھر ہوں“ جب کوئی موٴمن اس میں دفن کیا جاتا ہے تو اسے خوش آمدید کہتی ہے۔ اور جب کوئی (فاسق و) فاجر اور کافر اس میں دفن کیا جاتا ہے وہ اسے خوش آمدید نہیں کہتی۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
الترغیب والترہیب جلد ۴ ص ۲۳۷
قبر ہر روز کہتی ہے: ”میں غربت (پردیس) کا گھر ہوں، میں وحشت کا گھر ہوں، میں کیڑوں (مکوڑوں) کا گھر ہوں، میں جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہوں یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوں۔“
(حضرت امام جعفر صادق ؑ) بحار الانوار جلد ۶ ص ۲۶۷
اے اہل عقل و خرد اور اے صاحبان فہم و ذکأ! ذرا اپنے آباؤ اجداد کی اموات کو تو یاد کرو! اپنے آپ کو یوں سمجھو گویا تمہاری جانیں تم سے لے لی گئی ہیں، تمہارے جسموں سے کپڑے اتار لئے گئے ہیں اور تمہارے مال تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ پس اے ناز و نخرے کرنے والے! اور اے ہیبت و دہشت کے مالک! اور اے حسن و جمال کے پیکر! اب پراگندہ حال منزل اور غبارآلود مقام کی طرف منتقل ہو چکے ہو، اپنے رخسار کے بل اپنی لحد میں سو رہے ہو جو ایسی جگہ ہے جہاں ملنے والے بہت کم آتے ہیں اور کام کرنے والے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت اس وقت تک جاری رہے گی جب قبریں شگافتہ ہو جائیں گی اور حشر و نشر کے لئے سب کو دوبارہ اٹھادیا جائے گا۔
(حضرت علی ) بحار الانوار جلد ۷۷ ص ۳۷۱
جب موٴمن اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ستر ہزار فرشتے قبر تک اس کی مشایعت کرتے ہیں، پھر جب اسے قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو منکر و نکیر دو فرشتے اس کے پاس آ کر اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا نبی کون ہے؟“
وہ جواب میں کہتا ہے: ”اللہ میرا رب ہے، محمد میرے پیغمبر ہیں اور اسلام میرا دین ہے!“ اس پر وہ اس کی قبر کو اس کی نگاہوں کی حدود تک کشادہ کر دیتے ہیں، اس کے پاس کھانا لے آتے ہیں اور اسے فراخی اور آرام پہنچاتے ہیں۔
(امام جعفر صادق ) بحار الانوار جلد ۶ ص ۲۲۲
Bookmarks