نظر سے دور ہوتا جا رہا ہے
کہ وہ مجبور ہوتا جا رہا ہے
اسے ہم سے تغافل کا گلا ہے
جو خود مغرور ہوتا جا رہا ہے
ازل سے روح تو اپنی تھی گھایل
بدن بھی چور ہوتا جا رہا ہے
محبت جرم بنتی جا رہی ہے
عجب دستور ہوتا جا رہا ہے
خدا جانے تیری آنکھوں میں کیا ہے
کہ دل مجبور ہوتا جا رہا ہے
محبت کا ادھورا سا فسانہ
بہت مشہور ہوتا جا رہا ہے
Bookmarks