دوش ہے گھٹاؤں کا یا میری صداؤں کا
کون روک لیتا ہے رستہ میری دُعاؤں*کا
منزلیں مقدّر سے راہوں کو ملتی ہیں
راستوں سے بندھن ہے ہر کسی کے پاؤں کا
آ کبھی اندھیرے میں دیکھ صورتِ دُنیا
رنگ تو تماشا ہے دھوپ اور چھاؤں کا
آپ نے غلط سمجھا، آپ نے غلط جانا
میں تو صرف طالِب ہوں آپ کی دُعاؤں کا
دُشمنوں سے تو بچ کے لوٹ آیا ہوں
اب تو خوف لاحق ہے مجھ کو آشناؤں کا
~~~~~+++++~~~~~
Bookmarks