خوف الٰہی اللہ کی عظیم نعمت

مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی صاحب

تقوی وپرہیزگاری کی بنیاد،خوف الٰہی وخشیت خداوندی پر ہے ،بندہ جب اپنے دل میں اللہ تعالی کا خوف رکھتا ہے تو اس کے عملی زندگی میں تقوی وپر ہیزگاری پیداہوتی ہے ، ان حقائق کا اظہار مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر نے ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام مسجد ابوالحسنات پھول باغ جہاں نما حیدرآباد میں بروز اتوار بعد نماز مغرب منعقدہ ہفتہ واری لکچر کے دوران فرمایا-

سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام مقدس میں جابجاتقوی وپرہیزگاری کا حکم فرمایا،سورۃ الحشر‘آیت نمبر:18میں ارشاد فرمایا: ائے ایمان والو!اللہ سے ڈرو!اورہرآدمی غورکرلے کہ آنے والے کل لے لئے کیا تیار کررکھاہے ، اوراللہ سے ڈرو! بیشک اللہ باخبر ہے اُن تمام کاموں سے جو تم کرتے ہو ۔

مفتی صاحب نے فرمایا ہم کو چاہئے کہ خوف خداوندی وتصورآخرت اورمحاسبہ محشر ہمیشہ ملحوظ رکھیں ۔ایک وقت ایسابھی آنے والاہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ ذرہ برابر کی ہوئی نیکی کا بدلہ دے گا اورذرہ برابر کی ہوئی بُرائی کی سزا دے گا۔ارشادباری تعالی ہے:تو جس نے ذرہ بھر نيکي کي ہوگي وہ اسے ديکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کي ہوگي وہ اسے (بھي) ديکھ لے گا(سورۃ الزلزال:7٫8) اسی لئے اللہ تعالی کے دربار میں ہمیشہ ڈرتے ہوئے اورخوف وخشیت سے رہنا چاہئے ۔

سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ آج کے مادیت زدہ دورمیں نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے ، سماج میں بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے ،نہ گھر وں کی فکر ہے ،نہ بچوں پر نظر ہے ، اور نہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے، ہمیں چاہئے کہ اپنے دلوں میں خوف الہی پیداکرکے اپنے معاملات ،معاشرت اور اخلاق کو اسوہٴ حسنہ کے سانچہ میں ڈاھالیں ۔مفتی صاحب نےفرمایاکہ

خوف الٰہی ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ جسے یہ حاصل ہوجائے وہ دنیاوآخرت دونوں میں کامیاب وکامران ہوگا۔ صحابہ کرام واہل بیت عظام اپنی زندگی میں ہرلحظہ وہراٰن اللہ سے ڈرتے رہتے اورآخرت کی فکرمیں رہتے ۔باوجود یہ کہ قرآن وسنت میں انکے جنتی ہونے کی بشارت موجود ہے ،تاہم اُنکی زندگیاں خوف خداوندی وخشیت الہی سے لرزہ براندام ہیں ،چنانچہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب قبرستان کے پاس سے گزرتے تو آنکھ سے آنسو رواں دواں ہوجاتے ،ڈاڑھی مبارک بھیگ جاتی ‘پوچھا گیاکہ آپ جب قبرستان سے تشریف لیجاتے ہیں تو اتنا کیوں روتے ہیں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے جو اس میں کامیاب ہوگا وہ بعد والی منازل میں کامیاب رہے گا‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے تو جنت کی بشارت ہے‘ عشرۃ مبشرہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی کا خوف اس طرح ہے کہ ہمیشہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں ۔

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ پر خشیتِ خداوندی کا اِس قدر غلبہ ہواکہ آپ زاروقطار رونے لگے اور آپ کے آنسو پانی کی طرح پرنالے سے بہنے لگے ،جب وہ ایک شخص پر گرے‘ تو اس بندۂ خدا نے پوچھا یہ تو بتلاؤ کہ آیا یہ پانی پاک ہے یا ناپاک‘ اگر ناپاک ہو تو کپڑوں کو صاف کرلوں؟ آپ نے فرمایا: بہتر ہے کہ کپڑے صاف کرلو ، اس لئے کہ یہ ایک گنہگار کے آنکھ سے نکلا ہوا پانی ہے۔اس طرح ان حضرات کے دل خوف الٰہی سے سرشار رہتے اور یہ نفوس قدسیہ ہمیشہ اللہ کے دربار میں ڈرتے اور گڑگڑاتے رہتے .
اولیاء کرام کی مبارک زندگیوں میں بھی ہمیں تقوی وخشیت الہی کے عظیم نمونے ملتے ہیں چنانچہ شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ اپنی شادی کے تین سال بعد محکمہ مال گزاری میں خلاصہ نویس کی حیثیت سے سرکاری ملازم ہوگئےتھے۔ ڈیڑھ سال بعد آپ کے پاس ایک ایسی فائل خلاصہ لکھنے کیلئے آئی جوسودی کاروبار پر مشتمل تھی ، آپ نے اُس تحریر کا خلاصہ لکھنے کے بجائے استعفیٰ لکھ کر پیش کردیا۔ افسر اعلی نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی معاملات کرنے والے ،اسکی گواہی دینے والے اور اسکی دستاویزلکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے لہٰذا یہ ملازمت کرنا میرے لیے جائز نہیں۔ افسر بالانے آپکی دیانت داری کے پیش نظر کہا کہ آئندہ آپ کے پاس ایسی کوئی فائل نہیں بھیجی جائے گی۔ استعفیٰ واپس لے لیجئے! لیکن آپ نے کمال دیانت داری وجذبہٴ خشیت الہی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے پیش کش مسترد فرمادی کہ آپ جب تک رہے یہ رعایت فرمائینگے ، آپ کے بعد آنے والے افسر سے یہ توقع نہیں کہ مجھے یہ رعایت دے۔بہر حال اس طرح کہ شنیع معاملات کی ملازمت میرے لئے روانہیں ۔