اگر کوئی (مسلمان) حجاب کرنا نہیں چاہتی تو یہ بری بات ہے۔
کیونکہ دین مرضی کا نام نہیں ہے۔ اگر مرضی کا نام ہوتا تو ہر لڑکی / خاتون قرآن کی اس آیت کو ماننے سے انکار کر دیتی جس میں الرجال القوامون کا ذکر ہے۔
اسلام کے کسی بھی فرقے یا مکتب فکر نے عورت کے لئے حجاب کی شرعی حیثیت کا انکار نہیں کیا ہے
پاکستان میں ہر اہم سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لئیے حجاب اور داڑھی کو خیر باد کہنا شرط ہے۔چاہے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان دینا ہو یا وہاں تربیت لیناہو۔ یا فوج میں کمیشن حاصل کرنا ہو۔ داڑھی اور حجاب وہاں نا منظور ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیز کی ملازمت میں تو سر پر شفون کا شفاف دوپٹہ بھی منع ہے۔فرانس کا کیا رونا اسلامى جمہوریہ پاکستان كى قومى ائیر لائن کی ائیر ہوسٹس اور فومی چینل کی نام نہاد اینکر پرسن کو سر کے
بال ڈھانپنے کی اجازت نہیں ہے۔
میرا سوال اپنے ان بھائیوں سے ہے کیا وہ نہیں چاہتے کہ ان کی
بہنیں پردہ کریں؟
(حجاب : قرآن و حدیث کی روشی میں)
اللہ سبحانہ و تعالی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے توسل سے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے امت مسلمہ کی خواتین کو ’’حجاب‘‘ کی صورت میں ایک ایسا انمول تحفہ عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ماں، ہر بیٹی اور ہر بہن اگر چاہے تو اپنی ذات کو ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا انمول تحفہ ہے کہ جس کو اگر Proper طریقے سے اپنا یا جائے تو اس سے جسمانی طہارت کے ساتھ ساتھ قلبی طہارت و تقویٰ، پاکیزگی اور شرم وحیاء جیسی اعلیٰ صفات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ قرآن مجید میں بے شمار آیات ہیں جن میں پردہ، شرم وحیاء اور دوسرے معاشرتی آداب کو اپنانے کا طریقہ وسلیقہ سکھا یا گیا ہے۔ سورۃ النور، سورۃ النساء اور سورۃ الاحزاب میں پردے اور حجاب کے Concept کو بڑی تفصیل سے Define کیا گیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO
(الاحزاب،33 : 59)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)
اس آیت مبارکہ میں حجاب اور پردہ کی ہیئت ’’يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ‘‘ میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ (وہ اپنے اوپر چادروں کے پلُّو لٹکالیں) عربی زبان میں ’’جلباب‘‘ اس بڑی چادر کو کہتے ہیں کہ جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور یدنین جس کا مادہ ’’اَدْنَائ‘‘ اور’’ اَدْنٰی‘‘ ہے ۔ جس کے معنی قریب کرلینے اور لپیٹ لینے کے ہیں یہ لفظ جب حرف جر ’’علی‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی محض لپیٹ لینا نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہم اپنی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد گھونگھٹ نکالنا یا پلُّو لٹکانا ہے۔ اس آیت کے اندر صرف چادر کو ڈال لینا مراد نہیں ہے بلکہ چادر سے پورے جسم اور چہرے کو لپیٹ لینا مراد ہے، کیونکہ جب پلُّو لٹکانے کی بات آتی ہے تو گھونگھٹ چہرے پر ہی لٹکایا جا سکتا ہے۔ اور پھر اس سے یہ بات بھی اخذ کی جا سکتی ہے کہ چہرے کو ڈھانپنے سے ہی چہرے کا گھونگھٹ ہوتا ہے اور اس سے ہی چہرے کو ڈھانپنے اور اس کا حجاب کرنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ یہاں اس آیت میں ’’يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا معنی محض چادر کا لپیٹ لینا ہی نہیں بلکہ اسے جسم ولباس کے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ زینت وسنگھار وغیرہ بہت اچھے طریقے سے چھپ جائے۔
ابن سیرین طبری رحمۃاللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبیدہ سلمانی سے اس کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے چادر سے پورا سر پیشانی اور منہ ڈھانپ کر آنکھوں کو کھلا رکھا۔(تفسیر طبری)
اسی طرح کی روایات دوسری تفاسیر جیسے احکام القرآن، روح المعانی اور قرطبی میں بھی منقول ہیں۔
ابن جریر رحمۃاللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃاللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ عورت جلباب یعنی حجاب (نقاب) کو ماتھے کے اوپر سے موڑتے ہوئے باندھے پھر اسے ناک کے اوپر لے جاتے ہوئے یوں بل دے کہ اگر اس کی آنکھیں کھلی رہ بھی جائیں تو منہ ڈھک جائے۔ (تفسیرطبری)
علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ، علامہ شوکانی رحمۃاللہ علیہ، علامہ نیشاپوری رحمۃاللہ علیہ اور علامہ فخر الدین رازی رحمۃاللہ علیہ نے بھی اس کی تفسیر اسی انداز میں کی ہے۔ تقریبا ً تمام مفسرین چہرے کو ڈھانپنے کی تاکید فرماتے ہیں اور چاروں فقہاء کرام بھی اسی پر اتفاق کرتے ہیں جبکہ ہر دور میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں کہیں بھی چہرے کے نقاب کی فرضیت نہیں ملتی ۔ مگر چہرے کے پردے کے بارے میں تاریخ اسلام کے ہر دور کے مسلمانوں کا یہی طریق رہا ہے۔
Bookmarks