دل پر ہاتھ رکھ کر ” استغفار “ اور ” نعوذ باﷲ “ کی تسبیح کا ورد کرتے ہوئے مضمون کو پڑھنا شروع کریںکیونکہ عنوان میرا خود ساختہ نہیں بلکہ ۔۔۔! ” جیم“ نما نشان سے خود کو متعارف کروانے والے ایک معروف ابلاغی ادارے کے مکمل تعاون سے حال ہی میں بنائی گئی ایک فلم کا ہے جس فلم کا مرکزی خیال ” جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کیا“ یعنی ” دو بچے ہی اچھے “ اور” غیر دیندار گھرانہ خوشحال گھرانہ“ ہے۔
اس فلم پر زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد واشخاص نے تبصرے کیے!ملک کے ایک مشہور اخبار کے صحافیوں سے گفت وشنید کا اتفاق ہوا۔ ان اخبار نویسوں میں سے اکثر کی یہ رائے تھی کہ ”فلم “ بڑی ہٹ ہوئی ہے اور پاکستان نے اس فلم کے ذریعے کروڑوں کا بزنس کیا ہے ۔صحافی برادری کا خیال تھا کہ پاکستانی تاریخ میں یہ خوش آئند بات ہے اس سے ملک کے معاشی بحران میں کمی واقع ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔ خیر صحافی بھائیوں کی گفتگو سن کر میں بڑا رنجیدہ ہوا کیونکہ اسی اخبار کے ایک صاحب قلم نے اس فلم کی کچھ حقیقت ِ حال کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان کے سامنے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا اور اس کے علاوہ کچھ سنی سنائی باتیں بیان کیں تو کوئی ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ ان حضرات کا یہ رویہ دیکھ کر میں بھی متذبذب ہوگیا اور کہنے لگا کہ بھائی میں نے بھی خود تو نہیں دیکھی بس ایک صاحب قلم کی لکھی ہوئی بات تمہارے سامنے بیان کی ہے اور چند سنی سنائی سی باتیں۔ آخر کار فیصلہ اس بات پر ہواکہ تحقیق کے لیے فلم دیکھی جائے۔ بہر حال ابتداءسے انتہاءتک دیکھنے کی ہمت وجرات توکسی میں نہ تھی کیونکہ اس فلم میں اسلام کا جس انداز سے مذاق اڑایا گیا ہے اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو جس طرح سے مسخ کیا گیا ہے ، اسلامی طرزِ معاشرت کو اس قطع وبرید کے ساتھ پیش کیا گیاہے جیسا کہ وہ بے جان جسم جس کے ناک ، کان ، ہونٹ کاٹ دیے گئے ہوں ، آنکھیں باہر نکال دی گئی ہو اور اس جسم کا کوئی پرسا نِ حال نہ ہو ۔ اس لاوارث لاشے کو دیکھ کر لوگ جس طرح خوف اور ہیبت محسوس کرتے ہیں اسی طرح یہ فلم دیکھنے کے بعد ناسمجھ لوگ اسلام سے خوف کھانے لگیں۔
خیر فلم چلتی رہی اور ایک ایک کر کے صحافی برادری استغفار پڑھتے ہوئے اٹھتی چلی گئی۔ اب یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ اس فلم میں روا اسلامی توہین آمیز ہر ہر ادا کو نوٹ کیا گیا ہے لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ جو بات بھی لکھی گئی ہے وہ سو فیصد درست لکھی گئی ہے ۔ بڑھا چڑھا کر نہیں ! تو فلم کی روداد سنائے دیتے ہیں۔ نقل ِ کفر ۔ کفر نہ باشد!
اسلامی معاشرہ! انتہائی سخت ، ذ لت آمیز، حقارت بھرا، جھوٹ فراڈ پر مبنی، زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار، مار پیٹ کا علمبردار، غیرت کے نام پر قتل تک کی گنجائش، گھروالوں کو دھونس دھمکی اور ہمیشہ رعب میں رکھنا ، بات بے بات گالم گلوچ ، گھر کا ماحول ایسا آسیب زدہ ، نحوست بھرا ، رعب خوردہ کے دو بندوں کو گھر میں ہنس کر بات تک کرنے کی گنجائش نہیں ، دین کے داعی کو” دیوان اقبال “ تک سے اپنی مرضی کا فال نکالنے کی اجازت اور گھر والوںکا جائے نماز سے اٹھنا بھی محال ، بازار ِ حسن میں عصمت فروشی کرنے والی سے خلوت نشینی کر کے لڑکی جنوانے کے عوض ایڈوانس رقم لینا ۔ اس ایگریمنٹ کے ساتھ کہ لڑکی بھی عصمت فروشی کرے گی ۔ دین کا ٹھیکے دار شرافت واخلاق سے گری ہوئی اس حرکت کے ارتکاب کے لیے مسجد میں جاکر قرآن مجید سے فال نکالتا ہے جو کہ اس کے حق میں درست نکلتا ہے اور اس گری ہوئی حرکت کو کرنے سے پہلے سنت ِ رسول کو گٹر میں بہا دیتا ہے، یہ ساری تصویر کشی ایک دینی گھرانے کی کی گئی ہے۔غرض فلم کے اندر ہر طرح کی تکالیف اور مصیبتوں میں گھرے اس گھر کو جھنم نظیر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
Bookmarks