محبت مر ہی جائے گی!
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
مرے معصوم سے دل کو
لگا ہر دم یہ دھڑکا ہے
محبت مر ہی جائے گی
چلو یہ مان لیتی ہوں
کہ میں ہی اس کی مجرم ہوں
محبت میں نے ہی کی تھی
تمہیں اس کی ضرورت تھی
جلا کر اپنے خوابوں کو
تمہارا گھر کیا روشن
تمہاری ہر تمنا کو
بٹھایا دل کی مسند پر
تمہارے دل کے گلشن کو
سجایا خونِ دل دے کر
تمہاری راہ کے کانٹے
سبھی تو چُن لئے میں نے
بہاریں سونپ کر تم کو
کیا ویران اس دل کو
مگرپھر بھی یہ لگتا ہے
محبت مر ہی جائے گی
میں ہی نادان تھی مانا
اُمیدیں میں نے باندھیں تھیں
تمہارے جو بھی وعدے تھے
اُنہیں سچ مان بیٹھی تھی
ہرا رکّھوں بتا کیسے
وفا کے اس شجر کو میں
کہ ساری حسرتوں کا خوں
میں اس کو دان کر بیٹھی
صدا اس کی ذرا سُن لو
دلِ ناکام کہتا ہے
محبت جی نہیں سکتی
کسی ٹوٹے ہوئے دل میں
کسی بنجر سی کھیتی میں
کسی بے آب صحرا میں
کسی ویران گلشن میں
محبت مر ہی جائے گی!
زرقامفتی
Bookmarks