السلام علیکم
چہرے کا پردہ قرآن و سنت کی روشنی میں
جہاں تک چہرے کے پردے کی بات ہے تو عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے۔کتاب و سنت میں اس کے متعدد دلائل موجود ہیں۔خود عہدِ نبوی سے لے کر خلافتِ راشدہ تک تمام مسلم خواتین کا اسی پر عمل رہا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
و لا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا(النور:31
”اور وہ (خواتین)اپنی زینت ظاہر نہ کریں،ہاں مگر وہ زینت جو ظاہر ہو جائے“۔
یہاں پر زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو خود بخود ظاہر ہو جاتی ہیں۔جیسے عورت کے بدن کا خاکہ یا خدّوخال،یا ہوا کی وجہ سے کبھی برقع یا چادر کھسک جائے توجو ظاہر ہو جائے ۔یعنی بلاارادہ خود سے جو کچھ بھی ظاہر ہو، وہ اس میں شامل ہے۔لیکن چہرے کو اس میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ اس کوجان بوجھ کر ہی کھولے گی۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
یا ایھا النبی قل لازوٰجک و بناتک و نساءالمومنین یدنین علیھن من جلٰبیبھن ذٰلک ادنیٰ ان یعرفن فلا یو ذین و کان اللہ غفوراً رحیماً(الاحزاب:33)
”ائے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر لٹکا لیا کریں،یہ (بات اس کے)زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لے جائیں اور انہیں ایذا نہ پہنچائی جائے،اور اللہ بہت بخشنے والا،نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
صحابیات نے اس آیت سے مرادپورے بدن کے ساتھ ساتھ چہرہ ڈھکنا بھی لیا تھا۔حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا:
”جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین سیاہ چادریں اوڑھے نکلیں۔“(ابوداود:4101)
اور اگر چہرہ کھلا رہے گا تو کیا یہ ممکن ہے کہ عورت پہچان میں نہ آئے؟
سورة نور میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن(النور:24)
”اور اپنے پاوں (زمین پر)نہ ماریں تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں“۔
یعنی اگر عورت نے پائل وغیرہ پہنی ہوئی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ زمین پر پاوں مارتی چلے کہ مرد جھنکار سے اس کی طرف مائل ہو۔یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ پائل تک سے تو منع کیا جا رہا ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ چہرہ ہی جس میں سارا حسن اورکشش ہے، اسے یو ں ہی لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینے کے لیے کھلا رکھنے کے لیے کہا جائے گا؟
حضرت جابرؓسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے،اگر ممکن ہو تو اس کا وہ پہلو دیکھ لے جو اسے عورت کے ساتھ نکاح کرنے پر آمادہ کرے۔(اگر ایسا ممکن ہو تو)تو ضرور ایسا کرے“۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں :
”اس کے بعدمیں نے بنی سلمہ کی ایک خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے انہیں کھجوروں کے درختوں کے پیچھے چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی ۔آخر کارمیں نے انہیں دیکھ لیا جس سے مجھے ان سے نکاح کی رغبت ہوئی اور میں نے ان سے شادی کر لی“۔(ابوداود:2082)
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر اس زمانے میں خواتین اپنے چہروں کو کھلا رکھتی تھیں تو حضرت جابرؓ کو اس خاتون کو چھپ کر دیکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
حضرت اسما ءبنت ابی بکرؓسے روایت ہے :
”ہم اجنبی مردوں سے چہرے چھپایا کرتے تھیں“۔(المستدرک للحاکم:1/454)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر(852ھ)فرماتے ہیں:
”قدیم و جدید دونوں دور میں خواتین اجنبیوں سے چہرے کا پردہ کرتی ہیں“۔
امام غزالی کے مطابق:
”مردوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ چہرا کھلا رکھتے اور عورتیں نقاب اوڑھ کر نکلا کرتی تھیں“۔(فتح الباری:9/337)
فقہاءاحناف جیسے امام ابوبکرجصاص،امام علاوالدین،امام طحاوی اور حاشیہ ابن عابدین وغیرہ کے مطابق:
”خواتین کے لیے اجنبی یا غیر محرم مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ ننگا کرنا فتنے کا باعث ہو سکتا ہے“۔
مالکی مسلک کے حاملین اکابر فقہاءجیسے قاضی ابوبکر ابن العربی،قرطبی،امام ابن عبدالبراور امام آبی وغیرہ کے مطابق:
”عورت کے لیے چہرہ کھولنا بوقت ضرورت ہی جائزہے اور اگر فتنہ کا ڈر ہو تو عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ دونوں کو چھپانا ضروری ہے“۔(جواہر الاکلیل:1/41)
اورموجودہ دور میں تو کوئی کافر ہی فتنے سے انکار کرسکتا ہے۔
فقہاءشوافع جیسے اما م الحرمین جوینی،امام ابن رسلان،امام موزعی جیسے مشہور فقہاءکی رائے ہے کہ:
” فتنے کا خدشہ ہو یا نہ ہو،عورت کے لیے غیر محرم کے سامنے چہرہ کھولنا جائزنہیں ہے“۔(روضة الطالبین:7/27)
بہرحال درج بالا دلیلیں تو قرآن و حدیث سے تھیں لیکن اگر عقلی طور سے بھی دیکھا جائے تو ایک انصاف پسند آدمی بہت اچھے سے سمجھتا ہے کہ چہرہ ہی عورت کے حسن کا مرجع و منبع ہے اور فتنہ اسی کو دیکھنے سے ہوتا ہے۔
جو لوگ چہرے کاپردہ ضروری نہیں سمجھتے ہیں ان کو چاہیے کہ لڑکی کی منگنی کے وقت اس کاچہرہ دیکھنے کے بجائے صرف اس کا ہاتھ پیر ہی دیکھ لیا کریں،لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ۔ اس وقت چہرہ دیکھنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اصل حسن کس میں ہے؟
اسی ضمن میں ایک بات یہ بھی کہ بعض خواتین سے جب پردے کی بات کی جاتی ہے تو کہتی ہیں کہ اصل تو’ دل کا پردہ‘ ہونا چاہیے۔لیکن کیا ان کے دل امہات المومنین،نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور صحابہ کرام کی ماوں اور بہنوں سے زیادہ صاف اور پاکیزہ ہیں؟ہرگز نہیں،لیکن اس کے باوجود ان خواتین نے بشمول چہرے کے پردہ کیا۔اگر اس’ دل کے پردے‘ کے مفروضے کو ایک پل کے لیے مان بھی لیا جائے تو پھر لباس ہی پہننے کی کیا ضرورت رہتی ہے ؟بغیر لباس کے بھی تودل کا پردہ ہوسکتا ہے.... لیکن اس کے لیے کوئی راضی نہ ہوگا۔اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو پردے کا حکم دیا ہے اس کو بے چوں چرا مان لیا جائے۔اسی میں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی ہے۔
Bookmarks