نماز کے اسرار و رموز
وضو کا اہتمام
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)
(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنےچہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔
حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ (جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے)
ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جسکی وجہ سےنبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالٰی کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
فضائل وضو
ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ (وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنےدشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذیعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتےتھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔
حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ (تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالٰی اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔
ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سےتعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی باوضو گزارو۔ ہمارے گھر کاچھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپکو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فورًا نیا وضو کر لیتے ہیں۔
حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھےکہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا "فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارےسامنے رکھا گیا ہے۔ اسکی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کےساتھ، پھر جب اسکو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اسکو کاٹا گیا وضو کےساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کےساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اسکی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپکے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ،کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔
حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نےلگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نےسپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کرگیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالٰی کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔
شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا "حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی"۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔
فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کےمشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
مسواک کا اہتمام
ایک حدیث پاک میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر مجھے امت پر بوجھ کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنا فرض قرار دے دیتا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو نماز مسواک کے ساتھ وضو کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز سے ستر گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے جو بغیر مسواک کے پڑھی جائے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ مسواک کے اہتمام میں ستر فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ نصیب ہوتا ہے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ مسواک کا اہتمام کرو اس میں دس فائدے ہیں۔
منہ کو صاف کرتی ہے۔
اللہ تعالٰی کی رضا کا سب ہے۔
شیطان کو غصہ دلاتی ہے۔
اللہ تعالٰی اور فرشتے مسواک کرنے والے سے محبت کرتے ہیں۔
مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے۔
بلغم کو قطع کرتی ہے۔
منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے۔
صفراء دور کرتی ہے۔
نگاہ کو تیز کرتی ہے۔
نبی علیہ السلام کی سنت ہے۔
علامہ شامیؒ نے رد المختار میں مختصرًا مسواک کرنے کے مواقع کو تحریر فرمایا ہے جو درج ذیل ہیں۔
وضو کے وقت۔
لوگوں کے اجتماع میں شامل ہونے سے قبل۔
منہ میں بدبو ہو جانے پر۔
نیند سے بیدار ہونے پر۔
نماز سے قبل اگرچہ کہ وہ پہلے با وضو ہو۔
گھر میں داخل ہونے کے وقت۔
قرآن کریم کی تلاوت کے وقت۔
(رد المختار ج۱ ، ص۸۰)
مومن کو چاہئے کہ اپنے منہ کو صاف رکھے۔ چونکہ اسی منہ سے اللہ رب العزت کا قرآن پڑھنا ہوتا ہے۔
صحابہ کرامؓ مسواک کی اتنی پابندی کرتے تھے کہ مسواک کو اپنے کان پر قلم کی طرح رکھا کرتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ جو شخص پابندی سےمسواک کرے موت کے وقت عزرائیلؑ اسے کلمہ یاد دلاتے ہیں۔
ایک روایت کا مفہوم ہے کہ اگر تم پابندی سےمسواک کرو گے تو تمہاری عورتیں پاکدامنی کی زندگی گذاریں گی۔
حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے کہ تین چیزیں حافظہ کو قوی کرتی ہیں۔
Bookmarks