Results 1 to 1 of 1

Thread: Sharab Peny ki Zeyada Tar Akhseriyat SINDH OR BALOCHISTAN mei(must read)

  1. #1
    Join Date
    09 Jan 2008
    Location
    B3h!nd Y0u
    Posts
    3,463
    Threads
    284
    Credits
    62
    Thanked
    86

    Default Sharab Peny ki Zeyada Tar Akhseriyat SINDH OR BALOCHISTAN mei(must read)

    شراب بنانے کا سب سے بڑا کارخانہ مری بروری تو صوبہ پنجاب میں واقع ہے لیکن ان کی شراب سب سے زیادہ فروخت صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہوتی ہے۔

    جس کی بڑی وجہ مری بروری کے مالک اسفنیار بھنڈارا دونوں صوبوں میں غیر مسلمان آبادی کی اکثریت کا سندھ اور بلوچستان میں آباد ہونا بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق دوسری بڑی وجہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی شراب کے متعلق ’لبرل پالیسی‘ ہے۔

    اسفنیار کے مطابق سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے تقریباً ہر ضلع میں شراب فروخت کرنے کے لائیسنس جاری کر رکھے ہیں اور ان مخصوص دکانوں سے شراب با آسانی دستیاب ہوتی ہے، جہاں سے قانونی طور پر صرف غیر مسلم ایکسائیز ڈیپارٹمینٹ سے جاری کردہ پرمٹ پر شراب حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اچھی خاصی تعداد میں مسلمان بھی ان کی الکوہل مشروبات استعمال کرتے ہیں۔
    اِسفنیار کا موقف اپنی جگہ لیکن سندھ کے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ صوفیاء کرام کی دھرتی ہے، مذہبی رواداری ہے، ہندو مسلم اکٹھے رہتے ہیں اور سندھیوں میں مذہب پر قوم پرستی کا عنصر حاوی رہنے کی وجہ سے سندھ کے لوگوں میں شراب نوشی کا رجحان زیادہ ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ میں بھی مالدار لوگ سکاچ اور متوسط اور غریب لوگ پاکستانی شراب پیتے ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے بھی ’موالی‘ ہیں جو دیسی طریقہ سے خود بھی شراب تیار کرکے پیتے ہیں۔جہاں تک بلوچوں کا تعلق ہے تو وہ بقول ہمارے دوست واجہ صدیق بلوچ کے کہ مذہب کے معاملے میں بلوچ سندھیوں سے بھی زیادہ لبرل ہیں۔ ’ہمارے ان پڑھ لوگ تو اپنے سردار کو ہی سب کچھ سمجہتے ہیں۔‘

    حکام کے مطابق شراب پر سب سے زیادہ ٹیکس صوبہ سندھ میں عائد ہے جبکہ کم سے کم ٹیکس صوبہ بلوچستان نے عائد کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے شراب بنانے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ سندھ اور بلوچستان کو فراہم کی جانے والی شراب کی بوتلوں پر یہ لکھنا لازم ہے کہ ’یہ شراب سندھ کے لیے ہے‘ اور ’یہ شراب بلوچستان کے لیے ہے‘۔

    صوبہ سندھ اور بلوچستان کے لیے مختص کردہ شراب کے لیبل کے باوجود بالائی سندھ کے اکثر اضلاع جس میں کشمور، جیکب آباد، شکارپور اور لاڑکانہ وغیرہ شامل ہیں وہاں بلوچستان والی شراب کثرت سے فروخت ہوتی ہے۔ بلوچستان میں شراب پر ٹیکس کی کم شرح کی وجہ سے وہ سستی ملتی ہے۔

    سندھ میں شراب فروخت کرنے والی دکانوں کو ’گُتہ‘ کہتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص مقررہ اوقات میں شراب خرید کرسکتا ہے۔ رات آٹھ بجے کے بعد قانونی طور پر گتہ بند کرنا لازم ہوتا ہے لیکن ہر شہر میں گتے کا مالک آٹھ بجے کے بعد بھی اپنی جان پہچان والے گاہکوں کو مطلوبہ مقدار میں شراب دستیاب کردیتے ہیں۔

    پاکستان کی نصف آبادی والے صوبے پنجاب میں سرکاری طور پر شراب کی بظاہر کم فروخت کی وجہ مری بروری کے سینئر اہلکار میجر (ر) صبیح الرحمٰن کے مطابق حکومت کی جانب سے شراب فروخت کرنے کے لیے بنائی گئی پالیسی ہے۔ ان کے مطابق پنجاب میں فائیو یا فور سٹار ہوٹل مالکان کو ہی لائسنس دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شہر میں اس طرح کے ہوٹل نہیں ہیں۔ تاہم ان کے مطابق لاہور، ملتان اور دیگر بڑے شہروں میں واقع ایسی بڑی ہوٹل جنہیں لائسنس حاصل ہے انہیں وہ شراب فروخت کرتے ہیں۔

    پنجاب میں شراب کی کم فروخت کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار اپنی جگہ لیکن اگر حقائق دیکھے جائیں تو پنجاب کا شاید ہی کوئی ضلع ایسا ہو جہاں شراب دستیاب نہ ہو۔ ہاں البتہ بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے قدرے مہنگی ضرور ملتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے صاحب خان لاشاری کہتے ہیں کہ ’ہمیں شراب کے حصول میں دشواری ضرور ہوتی ہے لیکن مل جاتی ہے۔۔ ہندو یا کرسچن برادری کے لوگ انتظام کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ملاوٹ والی شراب بھی متھے لگ جاتی ہے۔‘

    شراب کے معاملے میں پاکستان کے صوبہ سرحد کی صورتحال اِس وقت دیگر تینوں صوبوں سے مختلف ہے اور وہاں سن دو ہزار دو میں جب چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے صوبے میں شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی اور حتیٰ کہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے پشاور کے جن دو بڑے ہوٹلوں میں شراب دستیاب ہوتی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ لیکن صوبہ سرحد میں موجودہ ’لبرل حکومت‘ کے قیام کے باوجود بھی تاحال پابندی تو ختم نہیں ہوئی البتہ شراب کی دستیابی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔

    پشاور میں چھ سے سات سو روپے میں پاکستانی شراب کی پچہتر ملی لٹر والی بوتل ملتی ہے لیکن سات سے آٹھ سو روپوں میں بھارتی شراب یا سکاچ کی ستر ملی لٹر والی بوتل مل جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر شراب نوشی کرنے والے ترجیح غیر ملکی شراب کو دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مری بروری کے مالک اسفنیار کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد میں ان کی الکوحل مشروبات کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    ( مے کش پاکستان کی اس سیریز کی آخری اور چوتھی قسط میں آپ شراب نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اس کے علاج کے بارے میں آپ تفصیلات پڑھ پائیں گے)۔
    Attached Images Attached Images  

Similar Threads

  1. Replies: 66
    Last Post: 8th August 2010, 04:52 PM
  2. Sindh Our Balochistan Main BARishon Ka Siilsila
    By BARi_Bhatti in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 1
    Last Post: 4th August 2010, 01:41 PM
  3. )---jeay sindh----(must read)---(
    By Jamali33 in forum Sindhi
    Replies: 5
    Last Post: 6th December 2009, 02:22 PM
  4. British in Balochistan, Must Read
    By shahid786imran in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 2
    Last Post: 10th October 2009, 09:54 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •