شراب کہن پھر پلا ساقي
وہي جام گردش ميں لا ساقي
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مري خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامي سے آزاد کر
جوانوں کو پيروں کا استاد کر
ہري شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن ميں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھٹرکنے کي توفيق دے
دل مرتضي ، سوز صديق دے
جگر سے وہي تير پھر پار کر
تمنا کو سينوں ميں بيدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کي خير
زمينوں کے شب زندہ داروں کي خير
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق ، ميري نظر بخش دے
مري ناؤ گرداب سے پار کر
يہ ثابت ہے تو اس کو سيار کر
بتا مجھ کو اسرار مرگ و حيات
کہ تيري نگاہوں ميں ہے کائنات
مرے ديدئہ تر کي بے خوابياں
مرے دل کي پوشيدہ بے تابياں
مرے نالہء نيم شب کا نياز
مري خلوت و انجمن کا گداز
امنگيں مري ، آرزوئيں مري
اميديں مري ، جستجوئيں مري
مري فطرت آئينہء روزگار
غزالان افکار کا مرغزار
مرا دل ، مري رزم گاہ حيات
گمانوں کے لشکر ، يقيں کا ثبات
يہي کچھ ہے ساقي متاع فقير
اسي سے فقيري ميں ہوں ميں امير
مرے قافلے ميں لٹا دے اسے
لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے
علامہ اقبال
Bookmarks