دیار نور میں تیرہ شبوں کاسا تھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوںکا ساتھی ہو
میں اُس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آئوں وہ میرا ہو کر رہے
میں گر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نبست سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام مجھ سے تو میرے لہجے میں
مین چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمرہیوں کا ساتھی ہو
وہ خواب دیکھے تو مرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
Bookmarks