غم دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غم ِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
حسن معصوم کو آمادہ بیداد کیا
مجھ کو خود میری تمنائوں نے برباد کیا
اشک بہہ بہہ کر مرے خاک پہ جب گرنے لگے
میں نے تجھ کو ترے دامن کو بہت یاد کیا
قید میں رکھا ہمیںً صیاد نے کہہ کہہ کے یہی
ابھی آزاد کیا بس ابھی آزاد کیا
پھر گئیں نظروں میں آنسو بھری آنکھیں اُن کی
جب کبھی غم نے مجھے مائل فریاد کیا
ہائے وہ دل مجھے اُس پہ ترس آتا ہے
تو نے برباد کیا، جس کو نہ آباد کیا
آہ وہ خاطر ِ نازک نہ ہو مغموم کہیں
ہچکیاں کہتی ہیں آج اُس نے مجھے یاد کیا
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خمار
ناز کر ناز کر اُس نے تجھے برباد کیا
Bookmarks