آج ہم ناگہاں کسی سے ملے
مدتوں بعد زندگی سے ملے
شمع کیا، چاند کیا، ستارے کیا
سلسے سب کے تیرگی سے ملے
پھول کر لیں نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
اُن اندھیروں سے کوئی کیسے بچے
وہ اندھیرے جو رونشی سے ملے
خود سے ملنے کو عمر بھر ترسے
یوں تو ملنے کو ہم سبھی سے ملے
غم بھی ہم سے بڑی خوشی سے ملا
ہم بھی غم سے بڑی خوشی سے ملے
زندگی کے سلوک کیا کہیے
جس کو مرنا ہو زندگی سے ملے
ہم پہ گزرا ہے وہ بھی وقت خمار
جب شناسا بھی اجنبی سے ملے
Bookmarks