کیا جانے کون منزل ِ راحت نظر میں ہے
غربت میں ہے سکون نہ آرام گھر میں ہے
تم جگمگا کے جس شبوں کو چلے گئے
مدت سے وہ غریب تلاش ِ سحر میں ہے
اے شیخ تو نے کی ہی نہیں سیر ِ میکدہ
جنت ترے خیال، میری نظر میں ہے
تیری جدائی نے اسے یکسر مٹا دیا
وہ ایک امتیاز جو شام و سحر میں ہے
دوزخ کو جو ڈبو دے گناہوں کا ذکر کیا
ایسی بھی ایک موج مری چشم تر میں ہے
آتی تھی نیند زنوائے محبوب پر خمار
یادش بخیر وہ زمانہ نظر میں ہے
Bookmarks