ہوائے شوق کے رنگیں دیار جلنے لگے
ہوئی جو شام تو جھکڑ عجیب چلنے لگے
نشیب در کی مہک راستے سمجھانے لگی
فراز بام کے مہتاب دل میں ڈھلنے لگے
وہاں رہے تو کسی نے بھی ہنس کے بات نہ کی
چلے وطن سے تو سب یار ہاتھ ملنے لگے
ابھی ہے وقت چلو چل کے اس کو دیکھ آئیں
نہ جانے شمس ِ رواں کب لہو اگلنے لگے
منیر پھول سے چہرے پہ اشک ڈھلکے ہیں
کہ جیسے لعل سم رنگ سے پگھلنے لگے
Bookmarks