ابھی مجھے اک صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک ،مسافت ختم ہوئی، اک سفر ابھی کرنا ہے
گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے
ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے
یہ تو آغاز ہے جیسے اُس پہنائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھر جانا ہے
جیسے زر کی پیلاہٹ میں موج ِ خون اترتی ہے
زہر ِ زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے
Bookmarks