کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے
اک نظر بندی کا عالم تھی نگر کی زندگی
قد میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے
ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جان ِ جہاں
خواب تھے، ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے
وہ چمکنا برق کا دشت و درو دیوار پر
سار ے منظر ایک پل س کے اجالوں میں رہے
کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقت ِ مرگ
آخری دم یار اپنے ک خیالوں میں رہے
دور تک مسکن تھے بن اُن کی صداوں کے منیر
دیر تک ان ناریوں کے غم شوالوں میں رہے
Bookmarks