ایک نگر کے نقش بھلا دوں ایک نگر ایجاد کروں
ایک طرف خاموشی کر دوں ایک طرف آباد کروں
منزل شب جب طے کرنی ہے اپنے اکیلے دم سے ہی
کس لیے اس جگہ پہ رک کر دن اپنا برباد کروں
بہت قدیم کا نام ہے کوئی ابر و ہوا کے طوفاں میں
نام جو میں اب بھول چکا ہوں کیسے اس کو یاد کروں
جا کے سنوں آثار ِ چمن میں سائیں سائیں شا خوں کی
خالی محل کے برجوں سے دیدار ِ برق وباد کروں
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحن سحر کے رنگوں میں
یا پھر کام ِ نظم جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
Bookmarks