کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلائوں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انھیں بس اک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے
Bookmarks