وہ دن بھی کیا تھے،غم سے کوئی واسطہ نہ تھا
در پیش اپنے کوئی کٹھن مرحلہ نہ تھا
دہلیز اپنی ذات کی کب ہم نے پار کی
در کونسا تھا ایسا جو ہم پر کھلا نہ تھا
وہ ملتفت ہماری طرف انجمن میں تھے
عرضِ طلب کا ہم کو مگر حوصلہ نہ تھا
ہر نقشِ پا پہ ہو نہ سکی خم جبینِ شوق
جو نقش بھی ملا وہ تیرا نقشِ پا نہ تھا
ہم داستانِ درد سناتے تو کس طرح
محفل میں تیری، کوئی بھی درد آشنا نہ تھا
محسوس اس کو میں نے کیا ہے قریبِ جاں
میرے تخیلات سے وہ ماوراء نہ تھا
یوں تو جہانِ رنگ میں سب کچھ تھا اس کے پاس
شہناز کی دعاؤں کا لیکن صلہ نہ تھا
Bookmarks