اس کو شہر سے دور بُلایا کرتے تھے
ہم بھی اپنا پیار چھپایا کرتے تھے
رو رو کر جب آنکھیں دُکھنے لگتی تھیں
اک دوجے کو خوب ہنسایا کرتے تھے
لمحہ لمحہ درد میں جلتے رہتے تھے
صورت صورت آس لگایا کرتے تھے
تنہائی میں دل کی سوچ زمینوں پر
ہم یادوں کے شہر بسایا کرتے تھے
باہر خوش خوش رہنا اپنی عادت تھی
گھر میں جا کر نیر بہایا کرتے تھے
Bookmarks