Results 1 to 3 of 3

Thread: تفسیر القرآن سورہ آل عمران

  1. #1
    hazratg is offline Senior Member+
    Last Online
    20th April 2007 @ 06:54 AM
    Join Date
    21 Feb 2007
    Age
    58
    Posts
    45
    Threads
    13
    Credits
    1,000
    Thanked
    0

    Default تفسیر القرآن سورہ آل عمران

    ترجمہ آیت(١٥٥):
    بے شک وہ لوگ جو تم میں پیٹھ پھیر گئے جس دن دونوں فوجیں ملیں سو شیطان نے ان کے گناہ کے سبب سے انہیں بہکا دیا اور اللہ نے ان کو معاف کر دیا ہے بے شک اللہ بخشنے والا تحمل کرنے والا ہے۔

    معارف الجہاد:
    اورجولوگ اس روز(یعنی غزوہئ احد کے دن ) بھاگے تھے تو ان کوشیطان نے ان کے بعض گناہوں کی شامت سے ڈگمگادیا تھا جو انہوں نے رسول کا کہنا نہیںمانا گھاٹی کو چھوڑ دیا اورخیر اس کو بھی اﷲ تعالیٰ نے معاف کردیا کیونکہ و ہ غفور حلیم ہے۔ (تفسیر حقانی)
    اقوال وحوالے :
    (١) استزلھم الشیطان شیطان نے انہیں پھسلا دیا ذکرھم تلک الخطیا فکر ھو القاء اﷲ معھا فاخّروا الجھاد حتی یصلح امرھم ویجا ھدوا علی حال مرضیۃ (تفسیر کبیر ، کشاف)
    شیطان نے انہیں ان کی خطائیں یاد دلادیں پس انہوں نے ان خطاؤں کی موجودگی میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند نہ کیا اورجہاد کو مؤخر کردیا تاکہ ان کے معاملے کی اصلاح ہوجائے اورپھروہ اﷲ تعالیٰ کی پسندیدہ حالت میں جہاد کرسکیں۔
    (٢) واعلم ان المراد:ان القوم الذین تولوا یوم احد عند التقاء الجمعین وفارقواالمکان وانھزموا قدعفا اﷲ عنہم۔
    آیت کی مراد یہ ہے کہ وہ حضرات جو غزوہئ احدمیں لڑائی کے وقت پیٹھ پھیر کر اپنی جگہ چھوڑ گئے تھے اورپسپا ہوگئے تھے اﷲ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمادیا ہے( التفسیر الکبیر)
    (٣)مخلصین سے بھی بعض اوقات کوئی چھوٹا بڑا گناہ سرزد ہوجاتا ہے اورجس طرح ایک طاعت سے دوسری طاعت کی توفیق بڑھتی ہے ایک گناہ کی نحوست سے شیطان کو موقع ملتاہے کہ دوسری غلطیوں اورلغزشوں کی طرف آمادہ کرے ، جنگ احد میں بھی جو مخلصین مسلمان ہٹ گئے تھے ، کسی پچھلے گناہ کی شامت سے شیطان نے بہکا کر ان کا قدم ڈگمگا دیا چنانچہ ایک گناہ تو یہی تھا کہ تیراندازوں کی بڑی تعدا د نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی پابندی نہ کی مگر خدا کافضل دیکھوکہ اسکی سزا میں کوئی تباہ کن شکست نہیں دی بلکہ ان حضرات پر اب کوئی گناہ بھی نہیں رہا حق تعالیٰ کلیۃً ان کی تقصیر معاف فرماچکا ہے کسی کو طعن وملامت کا حق نہیں (تفسیر عثمانی)
    (٤) ان اﷲ غفور حلیم بے شک اﷲ تعالیٰ بخشنے والاہے تحمل کرنے والا یہاں دو صفات باری کا اثبات کیا ہے غفورایک صفت غفر کا اس کا ظہور آخرت میں ہوگا حلیم دوسری صفت حلم کا اس کاظہور اسی دنیا میں ہوتا رہتا ہے کہ فوراً مؤاخذہ نہیں کرتا بلکہ تو بہ و استغفار کا موقع برابر دیتا رہتاہے ( تفسیر ماجدی )
    (٥) کلام برکت ۔۔۔۔۔۔:اس (یت ) سے معلوم ہو اکہ اس جنگ میں جو لوگ ہٹ گئے ہیں ان پر گناہ نہیں رہا۔(موضح القرآن )

  2. #2
    hazratg is offline Senior Member+
    Last Online
    20th April 2007 @ 06:54 AM
    Join Date
    21 Feb 2007
    Age
    58
    Posts
    45
    Threads
    13
    Credits
    1,000
    Thanked
    0

    Default

    ترجمہ آیت(١٥٦):
    اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جو کافر ہوئے اور وہ اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں جب وہ ملک میں سفر پر نکلیں یا جہاد پر جائیں اگر ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے تاکہ اللہ اس خیال سے ان کے دلوں میں افسوس ڈالے اور اللہ ہی جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھنے والاہے۔
    معارف الجہاد:

    ''یمان والوں کو ہدیت دی جارہی ہے کہ تم اپنی گفتگو میں منافقین جیسے نہ ہو جاؤ کہ ان کی سی باتیں کرنے لگو اس قسم کی باتیں صرف ایمان سے محروم لوگ ہی کرسکتے ہیں، وہ جب دیکھتے ہیں کہ جہاد میں لوگوں کو شہادت نصیب ہوئی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ اگر جہاد میں نہ جاتے اورہمارے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہتے تو نہ مرتے ، گویا (ان کے نزدیک ) موت صرف جنگ میں آسکتی ہے جو آدمی اپنے گھر بیٹھا رہے گا وہ کبھی مرنے والانہیں۔ ان کی باتوں سے صرف دل میں حسرت اورافسوس پیدا ہوتا ہے جو ایک روحانی عذاب اور بے فائدہ چیز ہے قضاتو کہیں ٹل نہیں سکتی۔زندگی موت سب اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میںہے اس لئے سچا مومن موت سے نہیں ڈرتا اورکبھی اس ڈرسے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا۔
    عجیب تنبیہ
    ظاہری شکست کے بعد ایک خطرناک فتنہ یہ اٹھتا ہے کہ مسلمانوں میں گھسے ہوئے منافقین (جن کو مسلمان ہی سمجھا جاتاہے ) یہ کہنا شروع کردیتے ہیںکہ شہید ہونے والے مجاہدین اگر ہماری طرح گھر بیٹھے رہتے اورجہاد میں نہ جاتے تو وہ اس طرح سے نہ مارے جاتے۔ ان کا یہ شور اس قدر شدید ہوتا ہے کہ کمزور دل مسلمان بھی ان ہی کی طرح سوچنا شروع کردیتے ہیں اس لئے اس آیت مبارکہ میں واضح تنبیہ فرمادی کہ اے مسلمانو! تم کافروں والی باتیں اپنی زبان پر نہ لیا کرو جہادمیں موت سمجھنے والے منافق دراصل کافر اور ا ﷲ تعالیٰ کے منکر ہیں اس لئے ان کا عقیدہ بگڑا ہوا ہے اوروہ اس واضح حقیقت کونہیں سمجھ سکتے کہ زندگی اورموت اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اورموت کاوقت اورمقام مقرر ہے ایسے بد نصیب لوگ ہمیشہ افسوس اورحیرت کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اس لئے تم ان کے غلط اور کفر یہ عقیدے کو زبان پر ہرگز نہ لاؤ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی اس واضح تنبیہ نے مسلمانوں کی اصلاح فرمادی اورموت کے بارے میں ان کے عقیدے کو چٹان کی طرح مضبوط بنادیا۔ آج بھی جب کسی جہاد میں مسلمانوں کو ظاہری شکست اورافراد کی شہادت کا سامنا ہوتا ہے تو سچے مسلمان یہی کہتے ہیں کہ ہر کسی کی موت اسکے وقت پر ہی آئی ہے البتہ جو شہید ہوگئے وہ خوش قسمت رہے کہ اﷲ پاک نے انہیں قبول فرمالیا ہے۔ مگر کچھ لوگ یہی شور مچاتے ہیں کہ ہائے مر گئے ، فلاں نے مروا دیا ، اگر یہ لوگ نہ جاتے تو بچ جاتے اﷲ تعالیٰ کافروں جیسی ان باتوں سے اہل اسلام کی حفاظت فرمائے۔ آمین واﷲ اعلم بالصواب۔
    اقوال وحوالے

    (١) موت وزندگی دونوں کے اسباب تمام تر اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اس مسبب الاسباب وعلت حقیقی کو چھوڑ کر نظر ظاہری اورفوری اسباب پر جانا اورسفر یا جہاد کو موت یا قتل کی علت تامہ قرار دینا ایک شدید جہالت وسفاہت ہے امریکہ میں اس وقت سوشیالوجی (عمرانیات) کا ایک ماہر فاضل ''ڈینی سن '' ہے وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتا ہے۔ ''مسلمانوں کے اس عقیدہئ تقدیر یا ہر امر تکوینی کو خدا کے تفویض کردینے کی عادت نے نیز عقیدہئ شہادت نی ( کہ شہید معاً جنت میں داخل ہوجاتاہے جہاں اسے بہتّر حوریں ملتی ہیں اورکھانے کےلئے سونے کے ظروف )مسلمانوں میں معرکہئ جنگ کے اندر بڑی ہی قوت اوراستقامت پیدا کردی تھی(ص٢٠٦) امریکی فاضل کا ایمان نہ عقےدہ تقدیر پر ہے نہ عقیدہ شہادت پر اس پر بھی وہ ان عقیدوں کی نافعیت اوران کی حیثیت افادی کی داد دینے پر اپنے کو مجبور پا رہا ہے۔ ( تفسیر ماجدی)
    (اسی لئے امریکہ اوریورپ مسلمانوں کے اس عقیدے کو کمزور کرنے کے لئے بھر پور محنت کررہے ہیں)
    (٢) کلام برکت
    یعنی نیک کام پر نکلے اورمرگئے یا مارے گئے تو نکلنے پر افسوس نہ کرے اس میں انکار (لازم) آتاہے تقدیر کا۔ اور آخرت کا فائدہ نہ دیکھنا دنیا کے جینے کو عزیز رکھنا سب خصلت ہے کافروں کی (موضح القرآن)
    (٣) یعنی تم منافقوں کی طرح ایسے لغو (بیہ ودہ ) خیالات کو زنہار ( یعنی ہرگز) دل میں جگہ نہ دینا کہ گھر میں بیٹھے رہتے تو نہ موت آتی نہ مارے جاتے۔ (تفسیر عثمانی)
    (٤) منافقین کہتے ہیں کہ اگر ہمارے وہ رشتہ دار جو جنگ میں مارے گئے ہیں ہمارے ہی پاس رہتے اور لڑائی میں شریک نہ ہوتے اور ہماری ہی طرح ( جہاد میں جانے سے)انکار کردیتے تو ان پر یہ مصیبت نہ آتی ظاہر ہے جوکچھ ہونا تھا وہ توہو گیا، البتہ ایک حسرت ہے جو ان کے دلوں میں باقی رہ گئی ہے ، اس کا غم انہیں زندگی بھر رہے گا اوراسی میں گھل گھل کر مر جائیں گے ، اصل بات یہ ہے کہ زندگی اور موت کا رشتہ فقط خداوند قدوس کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی یہ اختیار نہیں رکھتی ، اگر تمام مادی اور جسمانی قوتیں بھی کام کرنے سے رک جائیں ، پھر بھی اﷲ تعالیٰ روحانی قوتوں کی مدد سے ہمیں زندگی نوازش کرسکتا ہے، جب حالت یہ ہے تو پھر زندگی اورموت کے جھگڑے میں ایک مسلمان کو پڑنے کی کیا ضرورت ہے اسے تو ہمیشہ اپنے آ پ کو اﷲ تعالیٰ کے پاک نام پر قربان کرنے کو تیار رہنا چاہیے۔ (تفسیر الفرقان)
    (٥) وہ منافق شہید ہونے والے مسلمانوں کے باری میں کہتے ہیں لو کانو اعندنا ماماتوا وما قتلوا کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اورنہ قتل کئے جاتے۔ '' یعنی خواہ مخواہ باہر نکل کر مرے ہمارے پاس اپنے گھر پڑے رہتے تو کےو ں مرتے یا کیوں مارے جاتے ، یہ کہنا اس غرض سے تھا کہ سننے والے مسلمانوں کے دل میں حسرت وافسوس پیدا ہو کہ واقعی بے سوچے سمجھے نکل کھڑے ہوئے اور لڑائی کی آگ میں کود پڑنے کا یہ نتےجہ ہوا گھر رہتے تو یہ مصیبت کیوں دیکھنی پڑتی ، مگر مسلمان ایسے کچے نہ تھے جوان چکموں میں آجاتے ، ان باتوں سے الٹا منافقےن کا بھرم کھل گیا ، بعض مفسرےن نے لےجعل اﷲ ذلک حسرۃ فی قلوبھم میں ''لام عاقبت'' لےکر ےوں معنیٰ کئے ہیں کہ منافقےن کے زبان و دل پر یہ باتےں اس لئے جاری کی گئےں کہ خد اان کو ہمیشہ اسی حسرت و افسوس کی آگ میں جلتا چھوڑ دے اوردوسری حسرت ان کو یہ رہی کہ مسلمان ہماری طرح نہ ہوئے اورہماری باتوں پر کسی نے کان نہ دھرا ، گویا اس طرح ''لےجعل ''کا تعلق لاتکونوا سے بھی ہوسکتا ہے (تفسےر عثمانی)
    ایک سوال
    اس ایت میں فرمیاگیا کہ اے ایمان والو کافروں کی طرح نہ ہوجانا الخ حالا نکہ یہ بات کہ لو کانو اعندنا ماماتواوما قتلواکافروں نے ن ہیں منافقوں نے کہی تھی۔
    جواب
    امام رازی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں :
    فالایۃتدل علی ان الایمان لےس عبارۃ عن الاقرار با للسان الخ۔اس ایت سے ثابت ہو اکہ ایمان صرف زبان سے اقرار کرلےنے کا نام ن ہیں ہے ورنہ منافقوں کو کافر نہ کہاجاتا کےونکہ وہ زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے تھے۔( تفسےر کبےر)
    بعض علماء کے نز دیک اس ایت میں مسلمانوں کو ہر اس کافر جیسا بننے سے منع کیا گیا ہے جو اس طرح کی باتےں کرےں ( کہ موت جہاد میں ہے وغےرہ ) خواہ وہ کافر منافق ہو یا نہ ہو۔( تفسےر کبےر )
    نکتہ
    لےجعل اﷲ ذلک حسرۃ فی قلوبھمکے تعلق اورمعنیٰ کی تعےےن میں امام رازی رحمہ اﷲ کے دلچسپ کلام کاخلاصہ ملاحظہ فرمائےے:
    لےجعل کا تعلق یا تو قالواکے ساتھ ہے یعنی منافقوں نے یہ بات کہی تاکہ اﷲ تعالیٰ اس بات کو ان کے دل میں حسرت بنادے۔ یہ بات ان کے دل میں حسرت کا باعث کےسے بنی اس پر چھ اقوال ہیں :
    (١) منافقوں نے کہا یہ لوگ اگر جہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے۔ ان کی اس بات سے شہےد کے خاندان والوں کے دل میں حسرت وافسوس پیدا ہوتاہے کہ ہائے کاش ہم اس کونہ جانے دےتے اور سختی سے روک لےتے ، چونکہ ہم نے اسے جانے دیا اس لئے وہ ماراگیا تو گویا ہم اس کی موت کے ذمہ دار ہیں یہ بات سوچ کر ان کے دلوں میں غم اورحسرت کا درد اوربڑھ جاتا ہے۔ مگر یہ بات وہی لوگ کہتے اور سوچتے ہیں جن کے دلوں میں نفاق ہوتاہے ورنہ سچا مسلمان تو اس غلط نظریہ کو مانتا ہی ن ہیں اس لئے وہ حسرت سے محفوظ رہتا ہے، تو گویا منافقےن کی اس بات سے منافقےن ہی کی حسرت بڑھتی ہے۔
    (٢) منافقےن نے جب یہ بات پھےلائی کہ جہاد میں موت ہے تو وہ اور ان کے ساتھی جہادسے بےٹھ رہے پھر جب مسلمانوں کو جہاد میں فتوحات ، غنےمتےں اورغلبہ ملا توپےچھے بےٹھ رہنے والے ان منافقےن کے دل میں افسوس اورحسرت کی آگ لگ گئی۔
    (٣) یہ حسرت قیامت کے دن کی ہے جب منافقےن دیکھےں گے کہ اﷲ تعالیٰ مجاہدےن کو اتنے اونچے درجات اوراعلیٰ انعامات سے نواز رہاہے تب ان ہیں اپنی اس بات پر حسرت اورپچھتاوا ہوگا۔
    (٤) منافقےن نے جب یہ شبہ ڈالا تو بعض کمزور دل مسلمانوں نے اسے قبول کر لیا اس پر منافقےن نے خوشی منائی کہ ان کا مکرو فرےب کامیاب رہا تو اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ عنقرےب ان کا یہ عمل ان کے دل میں حسرت اورافسوس بن جائے گا جب ان ہیں معلوم ہوگا کہ وہ یہ شبہ ڈالنے میں باطل پر تھے۔
    (٥) ان منافقےن کا ہر وقت گمراہی اورشبہات پھےلانے کے لئے محنت کرنا خود ان کے دل کو تنگی ،حسرت اورپرےشانی میں ڈال دےتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ومن ےردا ن ےضلہ ےجعل صدرہ ضےقا حرجاً(الانعام١٢٥)
    (٦) منافقےن جب اپنا یہ شبہ پکے مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کی بات ن ہیں سنتے ، تب ان ہیں اپنی ناکامی اور ذلت پر حسرت ہوتی ہے۔
    دوسرا قول یہ ہے کہ لےجعل کا تعلق لاتکونواکے ساتھ ہے تب مطلب یہ ہواکہ اے ایمان والو! تم ان کافروں ، منافقوں جیسے نہ بنو تاکہ تمہارا ان جیسا نہ بننا ان کے دلوں میں افسوس اورحسرت کا باعث بن جائے، کےونکہ منافقےن کے عقےدے اوران کی باتوں کی مخالفت ان کو غم وغصے میں ڈالتی ہے۔(التفسےر الکبےر)
    دعوت ِ فکر
    ایت مبارکہ کامطلب بالکل واضح ہے اس کے باوجود ان تمام عبارات کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضر کے مسلمانوںکا عقےدہ کفر اور نفاق کے اثر سے محفوظ ہوجائے۔ پس ہم سب مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہم اپنے عقےدے کو درست کرےں اورکبھی بھی کافروں اورمنافقوں والیہ عقےدہ اختیار نہ کرےں کہ موت جہاد میں ہے اگر ہم جہاد چھوڑ کر بےٹھ جائےں گے تو ہم بچ جائےں گے۔ بلکہ ہم اپنا عقےدہ اس ایت سے اگلی ایت کے مطابق یہ بنائےں کہ جہادمےں شہادت یا موت کا آنا اﷲتعالیٰ کی مغفرت اوررحمت کاذرےعہ اوربہت اونچی سعادت ہے۔ اورموت کا وقت اورمقام مقرر ہے ، جس میں ہر گز تبدےلی ن ہیں ہو تی۔
    واﷲ ےحیی وےمےتاوراﷲ تعالیٰ ہی زندہ کر تا ہے اور وہی موت دےتاہے
    (١)ای ےقدر علی ان ےحےی من ےخرج الی القتال وےمےت من اقام فی اہلہ (قرطبی) یعنی وہ اس پر قادر ہے کہ جہاد میں جانے والے کو زندہ رکھے اورگھر بےٹھنے والے کو موت دے دے۔
    (٢)وفیہ منع المومنےن عن التخلف فی الجہاد لخشےۃ القتل۔(روح المعانی)
    اس میں مسلمانوں کو موت کے ڈر سے جہاد چھوڑنے سے منع کیا گیا ہے۔
    دعا
    یا اﷲ کافروں اور منافقوں جیسے نظریات رکھنے اوران جیسی غلط باتیں کرنے سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرما۔
    ربنا لاتزغ قلو بنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب




    Weekly Alqalam
    Last edited by hazratg; 26th February 2007 at 09:46 PM.

  3. #3
    Doctor is offline Senior Member+
    Last Online
    13th September 2009 @ 08:57 AM
    Join Date
    26 Sep 2006
    Location
    Alkamuniya
    Age
    52
    Posts
    21,458
    Threads
    1525
    Credits
    1,000
    Thanked
    36

    Default

    Masha ALLAh & Jazak ALLAH Brother

Similar Threads

  1. Replies: 17
    Last Post: 11th April 2018, 01:25 PM
  2. فضائلِ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ ،قرآن 
    By uxpos in forum Ramadan Kareem رمضان كريم
    Replies: 9
    Last Post: 23rd July 2014, 04:26 PM
  3. Replies: 33
    Last Post: 15th June 2014, 03:52 PM
  4. Replies: 74
    Last Post: 25th April 2013, 02:24 PM
  5. Replies: 1
    Last Post: 22nd November 2012, 11:23 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •