وہ کہہ رہا تھا،دیکھو تو ۔ایسا لگتا ہے
کہ جیسے ان گہرے نیلے پانیوں میں
کوئی راز دفن ہے
اور وہ دیکھو
نیلگوں سے آسماں پر
اُودے، سیاہ اور سرمئی
گلابی اور قُرمزی سے
بادلوں کو دیکھو
وہ دیکھو
پرندوں کی قطاروں کو
دیکھو اِن مست نظّاروں کو
وہ کہہ رہا تھا
دیکھو تو کسقدر حسین اور دلنشیں
ہلکا اور گہراہرا سبزہ پھیلا ہے یہاں وہاں
ارے ! وہ دیکھو گھٹا گھنگور
وہ کہہ رہا تھا
وہ دیکھو
یہ دیکھو
اسکے چہرے پے کتنے رنگ تھے
وہ جن سے بے خبر بیٹھا ہوا تھا
اُس پہاڑی پے، جہاں
سنگ جینے کی مرنے کی
قسم کھائی بھی جا سکتی تھی
جہاں ہر گھڑی محبت میں
بتائی بھی جا سکتی تھی
اُڑتی سی اُسکی زلف کو
پیشانی سے ہٹا کے
مخمو راُسکی نظروںسے نظر ملاکے
کہاآہستہ سے اسکا دِل دھڑکا کے
گہرے نیلے پانیوں کی گہرائی
ہے میری آنکھوں میں
کتنی سُبک سی پُروائی
ہے میری سانسوں میں
دیکھو
اِن سارے نظاروں کا عکس دیکھو؛
میرے چہرے پر
دیکھو
کالی سیاہ گھٹائیں ہیں میری زلفوں میں
اِدھر دیکھو
مجُھے دیکھو ناں
دیکھو ناں
Bookmarks