تمہیں معلوم ہے؟
تمہیں معلوم ہے جس سوچ نے تیری نظر کی سمت بدلی ہے
وہ کتنی خوف صورت ہے
تمہیں معلوم ہے ؟ لیکن تمہیں معلوم کیسے ہو!
کبھی ابرار کی تنہائی کی گہرائی میں اُترو تو جانو
اس کی ساگر جیسی باتوں کے کناروں سے ذرا آگے بڑھو
یہاں روحوں کو ، جسموں کو، سجانے والے
رنگوں کا جہاں آباد ہے
مگر تم تو کناروں پر کھڑی ہو
سنہرے پانیوں سے ڈر رہی ہو؟
ازل سے تا ابد پھیلی ہوئی میری محبت
تم کو اپنی پیاسی بانہوں کاسہارا دے رہی ہے
ذرا آگے بڑھو
کنارو ں سے ذرا آگے
مِری تنہائی تک
مِری گہرائی تک
نہیں تو
وہ اک سورج جو تیری واپسی کا منتظر ہے
سوا نیزے پہ آ کے آگ برسائے گاکناروں سے پرے تک
دور تک پھیلی ہوئی سب وسعتوں کو
جھوٹ میں لپٹے ہوئے سب آئینوں کو
اور جھوٹی روشنی سے جگمگاتی بستیوں کو راکھ کر دے گا
یہ تم جوپھول کی صورت ہو
تتلی کی طرح نازک ہو
کیسے بچ سکو گی؟
Bookmarks