مناؤں جشن کہ جشنِ بہاراں ہے
ُلٹاؤں ملکر خوشیاں جشنِ بہاراں ہے
کروں پوشاک زیبِ َتن
ُاٹھاؤ ڈھول باجے سب
َچھتوں پے جاؤ اپنی سب
َزناں کیساتھہ اپنی سب
ُاچھلُ کود ھو یا گانا ھو
یا فائرنگ پر ناچنا ھو
یہاں بیٹی ہو بیگم ھو
َسبھی موجود بے غم ھو
ھوئے ھو َمست بیخود ھو
ایک ھی حمام میں سب ھو
بیہودگی کی نہ حد ھو
بڑی بہنا ھو چھوٹی ھو
میری آپی ھو یا ُاسکی ھو
َچھتوں پر ٹولیاں ُانکو
تاکنے کو ھی آتی ھو
نا ھو مذہب کا پاس
جب مولوی بھی کھڑے ھوں پاس
پڑھتے ھوں نمازیں پانچ
ھوئی َقضاء نمازیں آج
حکومت سیکولر ٹھرائی
اپنی جان تو بچائی
اجازت پاس ھے ُصوبائی
رقوم رشوت کی کھائی
بیاں آتے ھیں سرکاری
بنے ھے ملک تجاری
لگے ِکتنوں کی ُروزگاری
چلے ِکتنوں کی ُیوں گاڑی
چلو آتے ہیں اب ُانکے پاس
نہیں ِجنکے چہیتے آج
ِاسی دن بھینٹ چڑھ گئے تھے
ِکتنی ماؤں کے معصوم لعل
ِکسی ماں کا پیارا تھا
کسی کی آنکھ کا تارا تھا
ِکسی کا تھا وہ شوہر
ِکسی کا تھا بڑا بھائی
نہ شامل میرا مذہب اس میں
نہ ُملک کی ثقافت اس میں
نہ جانے ُعشاق
لگاتے تن و من اس میں
نہ ہو عید کا پرچار
نہ بقرعید نا رمضان
ھر لمحہ ھوں تیار
بسنت کا آئے تہوار
خرافات لیں ڈوبے جب
یہ ھی تو حال ھوتا ھے
کسی کا باپ بیٹا بھائی
کسی کا شوھر کھوتا ھے
نا معلوم کب ُسدھرے
ُسدھرے بھی نہ ُسدھرے
مجھے تو عرض کرنی ھے
کوئی ناراض ھوتاھے
تجھے بھی ڈر لگتا ہے
ُتو جب گھر سے نکلتا ھے
نہ ھو ناخوشگوار واقعہ
ُتو یہ ُدعا بھی کرتا ھے
ُتو اندر سے گھائل ھے
ُتو دل سے بھی قائل ھے
مگر طبعیت بھی مائل ھے
زمانہ بھی تو حائل ھے
ُتو آج گھر پر رھہ جا
دو دن ُچپ کے رھہ جا
کہیں ڈور نہ ِپھر جائے
کہیں گولی نہ لگ جائے
اواِخیر میں یہ عرض ھے
بسنت تہوار نہیں فرض ھے
تیری ایک ڈور سے قاتل
چڑھے نسلوں کا قرض ھے
سعد نسیم محمد
اگر کوئی دوست سمجھتا ھے کہ وہ اس تحریر کی مزید ُنوک پلک سنوار سکتا ھے تو راقم کی طر ف سے اجازت ھے
Bookmarks