ہوا چلی بھی تو خود سے ڈرا دیا ہے مجھے
چراغ ِ شام ِ سفر نے بہت آسرا دیا ہے مجھے
مرے بدن میں پڑی جب بھی زلزلے کی دراڑ
مرے مکاں نے بہت آسرا دیا ہے مجھے
میں دھوپ دھوپ مسافت میں جس کے ساتھ رہا
ذرا سی چھائوں میں اُس نے بھلا دیا ہے مجھے
نئے دنوں کے لیے نیند نوچنا۔۔۔۔کیسا ؟
گئے دنوں کی رفاقت نے کیا دیا ہے مجھے
وہ تیری یاد کی انگلی پکڑ کے چلتی تھی
اُسی نے راہ میں آخر گنوا دیا ہے مجھے
بجھا تھا زہر میں ہر تار ِ پیراہن اپنا
مری قبا نے دریدہ بدن کیا ہے مجھے
حصار ِ دیدہ تر میں سمٹ گئے منظر
تھکاوٹوں نے عجب حوصلہ دیا ہے مجھے
نُچڑتے جاتے ہیں سب خواب اپنی پلکوں سے
یہ کس نے جاگتے رہنا سکھا دیا ہے مجھے
میں روشنی کی عالمت نہ فصل گل کا سفیر
سحر کی شاخ پہ کس نے سجا دیا ہے مجھے
میرے دیار ِ پرستش میں آسماں تھا وہ شخص
اُسی نے اپنی نظر سے گرا دیا ہے مجھے
اجاڑ دن تھا وہ محسن نہ ذکر شام ِ فراق
ہنسی خوشی یونہی اُس نے رُلا دیا ہے مجھے
Bookmarks