پلکوں تلے وہ کیسی غضب روشنی سی تھی
روشن پسِ حجابِ نظر کس کا خواب تھا
عارض کی تابشوں سے جھلکتا تھا نازِ حسن
سرخی میں لب کی ، عشق سے کیا کیا خطاب تھا
مخمور کر رہا تھا مجھے نشئہ نوا
لہجے کے زیرِو بم میں وہ کیفِ شراب تھا
اک بار اُس کو دیکھ کے، اُٹھی نہ پھر نگاہ
وہ حُسن تھا کہ آپ ہی اپنا حجاب تھا
یوں دیکھا اُس کو ، جیسے کہ دیکھا نہ ہو کبھی
ایسا لگا کہ جاگتے میں کوئی خواب تھا
Bookmarks