یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

حیات جس کا نام ہے بہادروں کا یہ جام ہے

یہ جام جھوم کر پیو جیو تو بے دھڑک جیو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

زمین پر نہیں قدم ہوا بھی ہاتھ میں نہیں

گزرتے وقت کا کوئ سرا بھی ہاتھ میں نہیں

چلے ہیں لوگ پھر کدھر پہچنا ہے کہیں اگر

تو نفرتوں کو پیار دو میرا وطن سنوار دو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

چنے تھے جس قدر گلاب خار خار ہو گئے

بنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے

گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں

چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

سجی ہے افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں

نہ کچھ اصول سلطنت نہ اقتدار کی حدیں

نظام سب الٹ گیا غبار سے جو اٹ گیا

وہ آئینہ نکھار دو میرا وطن سنوار دو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ

کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ

نشے میں دھت تمام ہیں نشے تو سب حرام ہیں

یہ سب نشہ اتار دو میرا وطن سنوار دو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

حرم کو جائے گی یہ گلی تو جاوں گا

نہ جی سکا تو حق کے راستے میں مر تو جاوں گا

خدا سے کرے جو وفا چلے جو سوئے مصطفی

مجھے وہ شہ سوار دو میرا وطن سنوار دو

یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو