پہلے سے بھی کڑی ہے وہی نامراد رات
رستے میں آ پڑی ہے وہی نامراد رات
دیکھی تھی ہم نے خواب میں اک خوشگوار صبح
جاگے تو پھر کھڑی ہے وہی نامراد رات
سورج ذرا سی دیر میں چمکے گا بام پر
بس ایک دو گھڑی ہے وہی نامراد رات
جتنا بڑا ہے دل میں مرے ظلمتوں کا خوف
اتنی کہاں بڑی ہے وہی نامراد رات
نہ جانے کتنی دیر تک روتے رہیں گے ہم
تاروں سے پھر جڑی ہے وہی نامراد رات
ہر دل میں تیری شعلہ بیانی اتر گئی
دریا کے ساتھ ساتھ روانی اتر گئی
اوج فلک پہ اڑنے لگا طائر خیال
حرف و قلم میں روح معانی اتر گئی
سورج کو ڈوبتے ہوئے ہم دیکھتے رہے
آنکھوں میں ایک شام سہانی اتر گئی
کمرے کا سارا بوڑھا پلستر اکھڑ گیا
یا دل سے ایک یاد پرانی اتر گئی
شانوں پہ تیری زلف کی خوشبو بکھرنے سے
سانسوں میں جیسے رات کی رانی اتر گئی
اب سچ کو کوئی سچ ہی نہیں مانتا کلیم
ہر دل میں اس کی جھوٹی کہانی اتر گئی
Bookmarks