Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 20

Thread: بدعت کیا ہے ؟ قرآن وسنت کی روشنی میں

  1. #1
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow بدعت کیا ہے ؟ قرآن وسنت کی روشنی میں



    دوستو بدعت کے متعلق لوگ اکثر غلط فہمی کا شکار ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ لکیر کے فقیر ہیں۔ دوستو ٹھنڈے دل سے اس مضمون کو پڑھیں اور اگر وقت ہو تو اس کتاب کو مکمل پڑھیں ۔ میں اس کا لنک بھی دے رہا ہوں ۔ تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ بدعتوں کا آغاز کس نے اور کہاں سے ہوا ۔
    شکریہ

    http://www.mediafire.com/file/ozzzmr5wnxi/Bidaat.pdf



    Attached Images Attached Images         

  2. #2
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow بدعت کی مثالیں

    بدعت کی مثالیں
    Attached Images Attached Images  

  3. #3
    Join Date
    24 Feb 2009
    Location
    pak
    Age
    35
    Gender
    Male
    Posts
    1,654
    Threads
    61
    Thanked
    38

    Default Haq Pehchanno...Musalmano....

    Quote tiks88 said: View Post
    بدعت کی مثالیں

    آپ اس کتاب کو صرف ایک بار اول تا آخر پڑھ لیں ۔۔۔آپ کو خود ہی پہچان ہو جائے گی کہ بدعت کیا ہے؟؟؟؟


    http://www.mediafire.com/file/g2yoaymyznk/Bidat

  4. #4
    janisp's Avatar
    janisp is offline Senior Member+
    Last Online
    21st January 2016 @ 10:17 PM
    Join Date
    13 Jun 2009
    Age
    35
    Posts
    137
    Threads
    17
    Credits
    818
    Thanked
    3

    Exclamation


    bhai aap kio aik dosre main jagar rahe ho islaam main apne musalmaan bhaiyo de jagarna mana hai plz b peace full AAP ko ALLAH ka wasta


  5. #5
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین

    میرے بھای یہ مسایل بہت اہم ہیں ۔ ان کےمتعلق غلط عقیدہ رکھنے سے ایک مسلمان جنت یا جہنم کا مستحق بن سکتاہے۔ لہذا ہماری کوشش ہونی چایے کہ لوگوں کو غلط عقیدہ رکھنے سے منع کرتے رہنا چایے۔ بحر حال یہ صحیح ہے کہ یہ کام خیرخواہی سے اور گالی گلوچ کے بغیر ہو۔ ہدایت دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ ہم تو صرف کوشش کر سکتے ہیں۔وقت کا پیغمبر بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتا ۔چاہے وہ اس کی بیوی ، بیٹا یا چچا ہی کیوں نہ ہو۔

  6. #6
    Islami Bhai is offline Senior Member+
    Last Online
    18th May 2015 @ 04:55 PM
    Join Date
    19 Jun 2009
    Posts
    127
    Threads
    21
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    اکثر وہابی بات بات پر بدعت بدعت کی رٹ لگاتے ہیں۔ اور جب اُن کو کہا جاتا ہے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں۔ ۱۔ بدعت حسنہ ۔ ۲۔ بدعت سیئہ۔
    تو جواباً کہتے ہیں کہ بدعت کی کوئی اقسام نہیں ہیں اور یہ اقسام تم نے گھر سے بنا لی ہیں۔ اور ایک ہی حدیث پاک پیش کرتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس سلسلے میں ہم پہلے وہی حدیث پاک پوسٹ کرتے ہیں۔ پھر بدعت حسنہ کے متعلق ایک حدیث پوسٹ کرتے ہیں۔ اور بدعت کی اقسام سے متعلق محدثین کرام اور مخالفین کے گھر سے ثبوت پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ اس سلسلے کی پہلی پوسٹ ہے انشاء اللہ مزید پوسٹس اس ٹاپک پر جلد پوسٹس کی جائیں گی۔


    اب اسلام میں اچھا کام شروع کرنے پر ثواب کی بشارت والی حدیث

    اب مخالفین کے گھر سے ثبوت۔ یہ تصویر فتویٰ دارالافتاء دیوبند کی ویب سائیٹ سے لی گئی ہے۔



    بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام

    بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں ، وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہو‏ئے ـ

    حضرت علامہ ملا علی قاری متوفی 1014 ھ مرقات شرح مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں امام نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ

    قال النووی البدعۃ کل شئے عمل علی غیر مثال سبق

    یعنی بدعت وہ کام ہے جو بغیر گذری مثال کے کیا جائے ـ

    نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی ـ بدعت اعتقادی ، اور بدعت عملی ، بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے اور بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد ایجاد ہوا ـ

    مرقات شرح مشکوۃ میں ہے کہ

    وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم

    یعنی بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں نہ ہو ـ

    بدعت دو طرح کی ہے ـ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ـ پھر بدعت حسنہ تین طرح کی ہے ، بدعت جائز ، بدعت مستحب ، بدعت واجب ، اور بدعت سیئہ دو طرح کی ہے ـ بدعت مکروہ ، اور بدعت حرام ، اس تقسیم کے لئے حوالہ ملاخطہ ہو ـ

    مرقات شرح مشکوۃ میں ہے کہ ـ

    کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص منہ البعض ہے ـ شیخ عز الدین بن عبد السلام ” کتاب القوائد ” کے آخر میں لکھتے ہیں کہ بدعت یا تو واجب ہے جیسے علم نحو کا پڑھنا ( تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھا جا سکے ) اور اصول فقہ کا جمع کرنا ، اور حدیث کے راوی میں جرح و تعدیل کرنا ، اور یا حرام ہے ـ جیسے جبریہ و قدریہ وغیرہ کا مذہب ، اور ایسے نو ایجاد گمراہ فرقوں کا رد کرنا بھی بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کو ان بدعات اور نئے مذہبوں سے بچانا فرض کفایہ ہے ، اور یا مستحب ہے ، جیسے مسافر خانے ، اور مدرسے بنانا، اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی ، اور جیسے عام جماعت سے نماز تراویح پڑھنا ، اور صوفیاء کرام کی باریک باتوں میں کلام کرنا ، اور یا مکروہ ہے ـ جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا مباح ہے ، جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ، اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں اور مکانوں کو وسعت دینا ـ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ : جو نیا کام کتاب و سنت یا اثر و اجماع کے مخالف ہو تو وہ گمراہی ہے ، اور جو ایسا اچھا کام نیا ایجاد کیا جائے کہ کتاب و سنت ، اثر و اجماع کے خلاف نہ ہو ، تو وہ مذموم و برا نہیں ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باجماعت تراویح ادا کرنے کے بارے میں بارے میں فرمایا تھا ـ کہ یہ کام ہے تو نیا مگر اچھا ہے ـ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ

    رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا کہ : ـ

    من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ

    صحیح مسلم ، ج 2 ، ص 341

    ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لئے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ

    اس حدیث شریف کی شرح میں امام نووی شافعی لکھتے ہیں کہ

    یہ دونوں حدیثوں اس بات پر رغبت دلانے میں صریح ہیں کہ اچھے کاموں کا ایجاد کرنا مستحب ہے ـ اور برے کاموں کا ایجاد کرنا حرام ہے ـ اور یہ کہ جو کوئی کسی اچھے کام کو ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے اجر کی مثل اس ایجاد کنندہ کو ملے گا ، اور جو کوئی برا کام ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے گناہ کی مثل اسکے نامہ اعمال میں درج ہوگا ـ

    علامہ شامی کے استاد محترم عارف باللہ علامہ عبد الغنی نابلسی متوفی 1143 ھ مطابق 1730 ء ” الحدیقۃ الندیّہ شرح الطریقۃ المحمدیّہ ” میں فرماتے ہیں کہ

    بعض علماء سے ان عمارتوں کے متعاق سوال کیا گیا جو کہ کعبہ کے اردگرد تعمیر کی گئی ہیں جن میں چاروں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھا کرتے ہیں کہ یہ طریقہ صحابہ کے دور میں نہ تھا یو نہی تابعین ، تبع تابعین ، اور ائمہ اربعہ کے عہد میں بھی نہ تھا اور ان حضرات نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کو طلب کیا تھا ـ

    تو انہوں نے جواب دیا کہ : یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے سیئہ نہیں ، کیونکہ سنت (طریقہ ) حسنہ میں داخل ہے ـ کہ اس سے مسجد اور نمازیوں اور عام اہل سنت و جماعت کو کوئی ضرر اور حرج نہیں ـ بلکہ بارش اور گرمی و سردی میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے ـ اور جمعہ وغیرہ میں یہ امام سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے ـ تو یہ بدعت حسنہ ہے اور لوگوں کے اس فعل کو ” سنّۃ حسنہ ” کہا جائے گا ـ اگرچہ یہ اہلسنت کی بدعت ہے ، مگر اہل بدعت کی بدعت نہیں ـ کیونکہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : من سنّ سنّۃ حسنۃ الخ ـ تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نےاس کی ایجاد کردہ حسنہ کو سنت میں داخل اور شمار فرمایا ـ مگر اس کے ساتھ ” بدعت ” کو بھی ملایا اور اگرچہ وہ نو پیدا اچھا کام حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے فعل میں تو وارد نہیں ہوا مگر اس حدیث کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے قول میں تو وارد ہو چکا ہے ـ لہذا کسی ایسے اچھے کام کا ایجاد کرنیوالا سنّی ہے بدعتی نہیں ـ کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ایسے کام کو ” سنّۃ ” قرار دیا ہے ـ


    دارالافتاء اہلسنت کا فتویٰ


  7. #7
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow

    محترم ویسے تو آ پ کے تما م نام نہاد دلایل کا جواب اس کتاب میں موجو دہے ۔ اگر آپ پڑھ لیں تو اچھا ہے۔ اسی کتاب کے آخری صفحات لوڈ کررہاہوں ۔ تاکہ دوسر ے لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔
    Attached Images Attached Images         

  8. #8
    Islami Bhai is offline Senior Member+
    Last Online
    18th May 2015 @ 04:55 PM
    Join Date
    19 Jun 2009
    Posts
    127
    Threads
    21
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    ALLAH AAP ko hidayet dey aap kidher kidher bagh rahe ho???
    Kabhi Eid Milad un Nabi Sallalalho Alaih e wasalam k taraf jaatey ho to kabhi kisi taraf mere bholey bhai abhi sirf bid'at par baat karo jabh bid'at ka masla hal ho jaye ga to baqi sabh kaam khud hi theek ho jaye gayn.

    main nein ahadees pesh ki hain bid'at par aap ho k bid'at par baat hi nahi kar rahe ho.

  9. #9
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow

    محترم

    میں معافی چاہتا ہوں کہ مصروفیت کی وجہ سے میں آپ کو جلد جواب نہیں دے سکا۔ آپ سےگذارش ہے کہ جو احادیث آپ نے پیش کی ہیں ۔ وہ مکمل حوالے سے پیش کریں ۔ میری مراد یہ ہے کہ ہر کتاب میں یہ احادیث ایک ترتیب سے نہین ہیں۔ اپ اس باب کا نام بھی لکھین کہ جہاں سے یہ حدیث لی گءی ہے۔ میرے پاس امام نووی کی جو شرح والی مسلم شریف ہے اس میں اپ کے حوالے مطابق یہ حدیث موجود نہیں ہے ۔ یعنی اس صحفہ پر نہین ہے۔ انشاء اللہ پھر مذید بات کریں گے۔

    فی الحال یہ اٹیج مینٹس بھی آپ کو کسی نتیجے پر پہنچا سکتی ہیں۔

    والسلام

    Attached Images Attached Images       

  10. #10
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow آپ کے سوالوں کے جوابات

    آپ کے سوالات یہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ==============================
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ


    رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا کہ : ـ

    من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ

    صحیح مسلم ، ج 2 ، ص 341

    ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لئے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ
    ======================================
    اب جواب ملاحظہ فرماءیں۔

    امام شاطبی رحمة اللہ اپنی کتاب "الاعتصام" کے آٹھویں بان لکھتے ہیں کہ اہل بدعت اپنے غیر شرعی اور نو ایجاد اعمال کے جواز میں بطور دلیل تین باتیں پیش کرتے ہیں:

    ۱﴾ بدعت حسنہ

    ۲﴾ استحسان

    ۳﴾ مصالح مرسلہ
    بدعت کی بحث پہلے ہو چکی ہے ۔ اب چونکہ آپ کے پہلے سوال کا تعلق استحسان سے تھا ۔اس لیے اس کا جواب سن لیں۔۔۔

    استحسان سے مراد وہ فعل ہے جسے مجتہد اپنی راۓ اور قیاس کی بنا پر مستحسن اور اچھا سمجھتا ہو اور اس کی طرف مائل ہو۔ اہل علم کے نزدیک استحسان ان چیزوں کی جنس سے جن کو عادات کے طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے اور جن کی طرف طبائع کا میلان ہوا کرتا ہے۔ لہذا ان کے مقتضیٰ کے مطابق ان پر حکم لگانا جائز ہے بشرطیکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نا پائی جاتی ہو جو اس کلام کے منافی ہو۔



    استحسان کی اس تعریف کے بعد اب اس کے حسن و قبح پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔



    ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی علیہم نے غیر منصوص واقعات کے معاملہ میں اپنی سمجھ کے مطابق ثابت شدہ امور سے استنباط کرنے اور ان کی طرف رجوع کرنے پر اپنی نظر و توجہ مرکوز رکھی نیز ان صحابہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں نے اس معاملہ میں اپنی طبعیت کے میلان کے مطابق فتویٰ دیا ہے یا یہ چیز میری چاہت اور اشتیاق کے موافق ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا تو اس پر سخت اعتراض اور نکیر کی جاتی اور اس سے کہا جاتا کہ بھلا تمہارے لیے یہ کہاں سے جائز ہو گیا کہ اللہ کے بندوں کے اوپر محض اپنی طبعیت کے میلان اور قلب کے رجحان کے مطابق احکام صادر کرو۔ بلکہ صحابہ کرام باہم مناظرہ کرتے اور ایک دوسرے کے مآخز پر اعتراض کرے تھے۔ نیز یہ لوگ شریعت کے اصول و ضوابط کو اختلاف راۓ کے باوجود حکم مانتے تھے۔ اگر شرعی احکام کا تعلق صرف استحسان سے ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بام مناظرہ کرنے سے کوئی فائدہ نہ تھا۔


    جو لوگ استحسان کو اپنی بدعت سازی کے لئے سہارا یا وسیلہ بناتے ہیں وہ اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اصولی طور پر "استحسان" بغیر کسی مستحسن یعنی استحسان کرنے والے کے نہیں پایا جاتا۔ یہ مستحسن خواہ عقل ہو یا شریعت۔ جہاں تک شریعت کا تعلق ہے تو وہ ہر چیز کو مستحسن ﴿اچھی، درست، جائز﴾ یا قبیح ﴿بری، غلط، ناجائز﴾ قرار دے کر فارغ ہو چکی ہے کونکہ دین مکمل ہو چکا ہے۔ لہذا جو چیز شریعت کی رو سے درست اور جائز پاۓ اس پر استحسان کا لیبل چپکانا بیکار ہے کیونکہ وہ چیز تو دراصل شریعت کے احکام میں داخل ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ احکام طبائع اور میلانات کے تابع نہیں ہوتے۔



    اگر استحسان کی بنیاد عقل کو مان جاۓ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کی عقل دلیل کی بنیاد پر کسی چیز کو مستحسن قرار دیتی ہے تو اس کو استحسان کا نام دینے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کا تعلق تو دلیلوں سے ہے، طبعی میلان یا کسی دوسری چیز سے نہیں! اور اگر عقل بلا کسی دلیل کے کسی چیز کو مستحسن قرار دیتی ہے تو یہی چیز "بدعت" ہے جسے غلطی سے "مستحسن" سمجھ لیا گیا ہے۔



    استحسان کے قائل اپنے موقف کی حمایت میں عموماً جو دلیلیں پیش کرتے ہیں وہ یہ ہیں:



    "فبشر عباد ﴿۱۷﴾ الذین یستمعون القل فیتبعون احسنة"۔"آپ میرے بندوں کو خوشخبری دے دیجئے جو قرآن کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کی بہترین باتوں کی پیروی کرتے ہیں" ﴿الزمر:۱۷، ۱۸﴾





    استحسان کے قائل مذکورہ بالا سورة الزمر کی دونوں آیات میں "حسن" سے مراد وہ چیزیں لیتے ہیں جن کو ان کی عقلیں مستحسن سمجھتی ہیں۔ اسی طرح ارشاد صحابی رسول کا مفہوم بھی ان کے نزدیک یہی ہے کہ عوام الناس جن چیزوں کو اپنی غلطی اور قیاس سے اچھی سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک اچھی ہی سمجھی جائیں گی، وغیرہ، وغیرہ۔

    قائلین استحسان کی پہلی دلیل کا کوئی تعلق مسئلہ استحسان سے نہیں ہے۔ کیونکہ "اتباع احسن" کا مطلب دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ قرآن مجید ہی ہے کچھ اور نہیں۔ ثبوت کے لیے سورة الزمر کی آیت ملاحظہ کیجیے: "اللہ نزل احسن الحدیث کتاباً متشابھاً"۔ "اللہ نے سب اچھا کلام نازل فرمایا ہے، یعنی ایک کتاب جس کی آیتیں معنی میں ملتی جلتی ہیں"۔ ﴿الزمر: ۲۳﴾



    "احسن الحدیث" سے مراد قرآن مجید ہی ہے۔ اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے خطبوں میں ارشاد فرماتے تھے: "اما بعد فان احسن الحدیث کتاب اللہ"۔ بے شک سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ﴿قرآن مجید﴾ ہے"۔



    قرآن اور حدیث کی اس وضاحت کے بعد کیا کوئی ایسی دلیل پیش کی جا سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہو جاۓ کہ طبیعت کے میلان اور نفوس کے رجحان درحقیقت اللہ کی جانب سے ہماری طرف "نازل شدہ" چیزیں اور احکام ہیں؟ کوئی اس بات کا دعوٰی کرنے کی جرات کرے گا کی یہ طبعی میلانات اور نفسانی رجحانات ہی احسن الحدیث ہیں؟



    استحسان کے قائل دوسری دلیل جو دیتے ہیں وہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ حدیث "موقوف" ہے اور کئی وجوہ سے حجت نہیں ہے:





    پس معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول استحسان کے قائلین کے خلاف جاتا ہے ان کی تائید نہیں کرتا۔



    لہذا معلوم ہوا کہ استحسان حجت شرعی نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اعمال کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے کیونکہ یہ "بدعت" کی طرف لے جانے والی شاہراہ ہے۔


  11. #11
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow


    اب مسلم شریف کی جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے ۔ اس کے متعلق سن لیں ۔۔۔
    مسلم شریف کی ایک حدیث یوں ہے ‫:

    ۱﴾ سورة الزمر مین اللہ تعلی کے یہ رشادات:" واتبعوا احسن ما انزل الیکم من ربکم"۔ "اور تم سب اس بہترین کلام کی پیرو کرو جو تمہارے رب کی جانب سے تم پر نازل کیا گیا ہے" ﴿الزمر: ۵۵﴾ ۲﴾ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی یہ حدیث: "جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے"۔ ۱﴾ فن حدیث کے مطابق "موقوف" حدیث وہ کہلاتی ہے جس کی روایت کی نسبت صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف ہو۔ یعنی وہ ان کا اپنا قول یا فعل ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہ ہو۔ ۲﴾ اس حدیث کا مضمون ظاہر طور پر اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ جس چیز کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اچھی ہے کیونکہ امت مسلمہ کسی باطل چیز پر متفق نہیں ہو سکتی۔ لہذا کسی چیز کی اچھائی یا برائی پر امت مسلمہ کا اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی دلیل موجود ہے۔ کیونکہ پوری امت کا اجماع کسی ایسی چیز پر نہیں ہو سکتا جس کی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہ ہو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ نے اپنی تالیفات میں اسکی پوری وضاحت کی ہے۔ ۳﴾ اگر اس حدیث سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ بعض مسلمان ہیں تو اس سے عوام الناس کے استحسان یعنی طبعی میلانات و خواہشات کا حجت ہونا لازم آتا ہے۔ حالانکہ یہ بات بالا جماع باطل ہے۔

    فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم
    ‏"‏ من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها ولا ينقص من أجورهم شىء ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شىء ‏"‏ ‏۔
    اردو ترجمہ :
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے پھر لوگ اس کے بعد اس کام پر عمل کریں تواس کو اتنا ثواب ہو گا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہو گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی اور جو اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر گناہ اس پر لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہوگا۔
    صحیح مسلم ، كتاب العلم ، باب : من سن سنة حسنة او سيئة ومن دعا الى هدى او ضلالة ، حدیث : 6975


  12. #12
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow


    ‫1۔ اس حدیث میں ’سنة حسنة‘ اور ’سنة سيئة‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ لہذا یہ حدیث ’بدعت حسنة‘ اور ’بدعت سيئة‘ کی دلیل نہیں بن سکتی ۔ اور نہ ہی اس حدیث کی بنیاد پر بدعت کی اقسام بیان کی جا سکتی ہیں ۔

    2۔ ’سنة‘ عربی لفظ ہے اور جس کے معانی آپ عربی لغت میں دیکھیں تو اس کا مطلب : عادت ، طور طریقہ ، اخلاق و کردار ، طبیعت ۔۔۔ نکلتا ہے ۔
    اور اس حدیث میں ’سنة حسنة‘ کا مطلب ایسے آدمی پر بولا گیا ہے جو اچھی عادت و کردار کا مالک ہو ، ایسا مزاج اور طور طریقے رکھنے والا قابلِ تحسین ہے اور اس کے برعکس کرنے والا مذموم ہے ۔
    لہذا اس حدیث سے ’بدعت حسنة‘ اور ’بدعت سيئة‘ کا جواز قطعاََ نکالا نہیں جا سکتا ۔

    3۔ کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان یہ ہرگز بھی نہیں کہتا کہ : بس لغت کی مدد سے ہی قرآن یا حدیث کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی نہیں مانی جا سکتی کہ جس کی جو مرضی میں آئے وہ اپنا مطلب سمجھائے ۔ مثلاََ ، جیسا کہ اس حدیث سے کچھ علماء یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ : کسی امتی کا جاری کردہ عمل بھی سنت ہے ۔
    لہذا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ : صحیح مسلم کی مذکورہ بالا حدیث کا مطلب بھی قرآن اور حدیث کے دلائل سے سمجھا جائے ۔۔۔ اور جو یوں ہیں ‫:

    امتی کی یہ شان نہیں کہ سنت کی تخلیق کرے بلکہ امتی کا کام سنت پر چلنا اور اس سے تمسک کرنا ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ‫:
    إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
    اردو ترجمہ طاہر القادری :
    ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
    ( سورة النور : 24 ، آیت : 51 )
    اس آیتِ قرآنی نے صراحت کر دی ہے کہ امتی کا کام سننا اور اطاعت کرنا ہے ۔

    ایک دوسری آیت میں امتِ مسلمہ کو خیر الامت کہا گیا ہے کہ یہ امت دین کی داعی امت ہے ، ارشاد ہوتا ہے ‫:
    كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
    اردو ترجمہ طاہر القادری :
    تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں ۔
    ( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 110 )
    ان دو آیاتِ فرقانی سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ امتی کا کام سنت ایجاد کرنا نہیں بلکہ سنت کی طرف دعوت دینا ہے ۔
    اب صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث سے بھی اسی مفہوم (یعنی : سنت کی طرف دعوت) کی دلیل جان لیجئے ۔
    صحیح مسلم کے اسی باب :
    من سن سنة حسنة او سيئة ومن دعا الى هدى او ضلالة
    کی آخری حدیث یوں ہے ۔
    رسول الله صلى الله عليه وسلم قال
    ‏"‏ من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا ‏"‏ ‏۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ہدایت کی طرف بلائے ، اس کو ہدایت پر چلنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہوگا اور جوشخص گمراہی کی طرف بلائے گا ، اس کو گناہ پر چلنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور چلنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہوگا۔

    پہلی حدیث میں جو الفاظ ’من سن في الاسلام‘ بیان ہوئے ہیں ، ان کے معنی دوسری حدیث سے یوں پتا چلتے ہیں کہ ‫:
    نئی سنت یا نیا طریقہ جاری کرنا مراد نہیں بلکہ ہدایت کی طرف دعوت دینا اور اس پر عمل کرنا اور لوگوں کو عمل کی تلقین کرنا مراد ہے ۔
    اور ہدایت ۔۔۔ سوائے قرآن اور حدیث کے ، اور کوئی تیسری چیز نہیں ہے ‫!

    4۔ صحیح مسلم کی اس حدیث میں لفظ ’سنة‘ کے ساتھ ’حسنة‘ کی قید موجود ہے ۔
    اہل سنت کے نزدیک کسی بھی شرعی امر میں حسن و قبیح اس وقت تک نہیں پایا جا سکتا جب تک کہ اس کا ثبوت شریعت سے نہ ملے ۔
    جبکہ ۔۔۔ بانیءاسلام نے ’کل بدعة ضلالة‘ کہہ کر بدعت کی تو جڑ ہی کاٹ دی ہے ۔ لہذا ’بدعتِ حسنة‘ کہاں سے ثابت ہوگی ؟؟

    آپ کے تمام سوالوں کے جواب دے دیے گے ہیں ، کچھ اور ہوں تو پیش کریں ورنہ باز آ جاءیں۔ ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنا مواد پیش کرتے ہیں۔ دوسرے کا پڑھتے نہیں ۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ اور کسی کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلنے سے بچائے۔ آمین

    شکریہ
    Last edited by tiks88; 6th September 2009 at 06:46 AM.

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 6
    Last Post: 21st May 2021, 08:28 AM
  2. Replies: 4
    Last Post: 3rd May 2015, 06:26 PM
  3. Replies: 33
    Last Post: 22nd June 2010, 12:06 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •