ہے عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو کئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب، نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں، یقیں، وہ گماں گماں،گئی پل کا تو گئی پل کا میں
میری جاں وہ پل جو گئی نکل کوئی پل تھی وہ کہ ازل ازل
سو گزشتگی میں ہیں بے کراں، گئی پل کا تو گئی پل کا میں
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبار ۔ رفتہ کارواں، گئی پل کا تو گئی پل کا میں
تو میرے بدن سے جھلک بھی لے میں تیرے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جان ِ جاں، گئی پل کا تو گئی پل کا میں
گلہ ِ فراق تو کیوں بھلا طلب ِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس ایک دھواں ، گئی پل کا تو گئی پل کا میں
Bookmarks