حال ہی دل کا مرے ایسا تھا پچھلی شام کو
میں اکیلے میں بہت رویا تھا پچھلی شام کو
ساری بستی میں اندھیرو ں کے سبب چمکا رہا
اک دیا جو طاق پر رکھا تھا پچھلی شام کو
اک خبر تھی پھر ابابیلوں کا لشکر آئے گا
سب فصیلوں پر کڑا پہرا تھا پچھلی شام کو
جس جگہ پر ریت کے ٹیلے کھڑے ہیں جا بجا
اس جگہ بہتا ہوا دریا تھا پچھلی شام کو
تم مجھے پاگل کہو عاشق کہو شا عر کہو
ایک سایہ چاند سے نکلا تھا پچھلی شام کو
وہ گیا تھا یا کوئی شعلہ بجھا تھا جسم میں
درد سا دل میں مرے اٹھتا تھا پچھلی شام کو
اس سے بچھڑے دو برس اب ہو گئے مجھ کو کلیم
میرے گھر میں ہجر کا میلہ تھا پچھلی شام کو
Bookmarks