ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری راہ میں کرتے تھے جو سر طلب، سر راہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شب ِ انتظار چلی گئی
مرے ضبط ِ حال سے روٹھ کر مرے غمگسار چلے گئے
نہ سوال ِ وصل نہ عرض ِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
تری عہد میں دل ِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمہں تھے جن کے لباس پہ سر رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کہ ہم سر ِ بزم ِ یار چلے گئے
نہ رہا جنون ِ رُ خ وفا۔ نہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
Bookmarks