اک شہر غریباں میں فقیروں کی طرح تھے
وہ لوگ جو توقیر میں شاہوں کی طرح تھے
جن لوگوں کو ہم دشمن جاں کہتے رہے ہیں
وہ لوگ بھی اپنے ہی عزیزوں کی طرح تھے
وہ یادیں جو مجھ کو مری ہستی کا نشاں تھیں
وہ خواب جو مجھ کو مری آنکھوں کی طرح تھے
کہنے کو تو یہ سال بھی اب بیت گیا ہے
اس سال میں دن رات مہینوں کی طرح تھے
ا س لہجے کی خوشبو سے بسا رہتا تھا آنگن
وہ بولے تو پھر لفظ بھی پھولوں کی طرح تھے
اس رات ستاروں کی بھی آنکھوں میں نمی تھی
اس رات تو آنسو بھی چراغوں کی طرح تھے
Bookmarks