Results 1 to 3 of 3

Thread: سید عبدالعزیز حکیم کا سانحہ ارتحال

  1. #1
    M-Qasim's Avatar
    M-Qasim is offline Advance Member+
    Last Online
    7th September 2022 @ 07:41 PM
    Join Date
    22 Mar 2009
    Gender
    Male
    Posts
    33,351
    Threads
    915
    Credits
    1,718
    Thanked
    3391

    Default سید عبدالعزیز حکیم کا سانحہ ارتحال

    سید عبدالعزیز حکیم کا سانحہ ارتحال


    اسلامی مجلس اعلیٰ عراق کے سربراہ سید عبدالعزیز حکیم 26اگست 2009 کو دارفانی کو الوداع کہہ گئے۔ وہ کچھ عرصے سے پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور تہران کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ عالمی شہرت یافتہ دینی مرجع آیت اللہ سیدمحسن الحکیم طبا طبائی کے فرزند تھے۔ وہ دس بھائیوں میں سے اس وقت ایک ہی تھے۔ ان کے سات بھائیوں کو صدام حکومت نے شہید کردیا تھا۔

    صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے بھائی سید محمد باقر الحکیم کو 29اگست 2003 کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ نجف اشرف میں نماز جمعہ کی امامت کے بعد حرم امام علی ؑ سے باہر نکل رہے تھے۔ وہ خود اوران کے متعدد بھائی مسند اجتہاد پر فائز تھے۔ سید عبدالعزیز نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے محسن حکیم اور عمار حکیم پس ماندگان میں چھوڑے ہیں۔ عمار حکیم جو خود بھی ایک عالم دین ہیں کچھ عرصے سے اپنے والد کی ترجمانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

    سید عبدالعزیز حکیم معروف انقلابی دینی مرجع اورمفکر عصر آیت اللہ سید محمد باقر الصدر شہید کے لائق شاگردوں میں سے تھے۔سید باقر الصدر کو بھی صدام حکومت نے 1980کے اوائل میں دورانِ قیداذیتیں دے دے کر شہید کردیا تھا۔

    صدام حکومت کے خلاف سید عبدالعزیز نے طویل جدوجہد کی۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے سپاہ بدر قائم کی۔ سید باقرالصدر کی وفات کے بعد جب عراق کے حالات نہایت وحشت انگیز ہوچکے تھے انھوں نے اپنے بھائی باقر الحکیم کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی۔ شام میں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ ایران چلے آئے۔ 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے تک وہ ایران ہی میں رہے۔1980میں انھوں نے پہلے جماعت العلماءکے نام سے ایک تنظیم قائم کی بعد ازاں وسیع تر مقاصد کے پیش نظر اسی تنظیم کا نام مجلس اعلیٰ انقلاب اسلامی عراق ہوگیا۔ ایک عرصے تک اس کے سربراہ سید باقر الحکیم رہے جبکہ بین الاقوامی اور جہادی امور سید عبدالعزیز کے ذمے رہے۔سید باقرالحکیم کی المناک شہادت کے بعد مجلس اعلیٰ کی مرکزی شوری نے سید عبدالعزیز کو اپنا سربراہ چن لیا۔

    مجلس اعلیٰ اس وقت عراق کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔سید عبدالعزیز نے کوئی حکومتی عہدہ تو قبول نہیں کیا لیکن وہ نہایت مقتدر سیاسی راہنما تھے۔ عراق میں امریکی افواج کی موجودگی میں انھوں نے ایرانی قیادت کے ساتھ ہنرمندانہ طریقے سے روابط برقرار رکھے۔عراق کے اقتدار اعلیٰ کی حفاظت، عراقی حکومت کو ہرلحاظ سے مضبوط بنانے اور عراق میں امریکی فوجی تسلط سے نجات دلانے کے لئے اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہ ان کی سیاسی بصیرت ہی تھی جس کے نتیجے میں امریکہ 2011 کے آخر تک عراق سے مکمل فوجی انخلا کی قرارداد پر دستخط کرنے پرآمادہ ہوا۔ اسی قرارداد کے نتیجے میں اس وقت امریکی افواج عراق کے تمام شہری علاقوں سے نکل چکی ہیں اور کوئی بھی امریکی فوجی شہر میں داخلے کے لئے عراقی حکومت سے اجازت لینے کا پابند ہے۔

    سید عبدالعزیز نے یکے بعد دیگرے آنے والے عراقی وزرائے اعظم کو ہمیشہ اپنی مدد فراہم کی یہی وجہ ہے کہ علاوی، ابراہیم جعفری اورنوری المالکی سب کے ساتھ اُن کے مراسم بہت اچھے تھے۔ اگرچہ آخری دونوں وزرائے اعظم کا تعلق حزب الدعوہ سے ہے۔ سید عبدالعزیز کو کرد عراقی صدر جلال طالبانی کااعتماد بھی حاصل تھا۔ ایران کے روحانی پیشوا اوردیگر ایرانی علماءاورقائدین کے ساتھ ان کے بہت قریبی مراسم تھے۔وہ گذشتہ برس پاکستان بھی تشریف لائے تھے یہاں پر بھی ان کے دوستوں کا ایک حلقہ موجود ہے۔ انھوںنے عراق کے اندردہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان تھک جدوجہد کی۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے علم بردار تھے۔ انھوں نے اپنے پیروکاروں کو ہر قسم کے فرقہ وارانہ رد عمل سے ہمیشہ بازرکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عراق کے تمام مکاتب فکر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی اور دیگر بالغ نظر علماءہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ عراق میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کی مذموم مساعی بڑی حد تک ناکام ہوگئی ہیں۔ القاعدہ جو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں خاص طور پر سرگرم ہوگئی تھی اس کی کارروائیاں اب بہت محدود ہوکررہ گئی ہیں۔

    مئی دو ہزار سات میں امریکہ کے دورے میں ٹیسٹ کروانے پرانھیں معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ بیماری نے اُن کے جسم پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ انھوں نے اپنی سیاسی مصروفیات بہت کم کردی تھیں۔ اٹھارہ ماہ تک وہ اس موذی مرض سے لڑتے رہے لیکن بالآخر تقریباً 60برس کی عمر میں جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ اُن کے پیکر خاکی کو تہران سے نجف اشرف لے جایا گیا اورلاکھوں اشکبار آنکھوںنے انھیں آخری وداع کہا۔

    سید عبدالعزیز حکیم کی رحلت سے عراق کے ایک رجل فقیہ، دلسوز راہنما اورمقبول مدبر سے محروم ہوگیا ہے۔بعض سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اُن کے بعد ان کے صاحبزادے سید عمارالحکیم مجلس اعلیٰ اسلامی عراق کے سربراہ منتخب کر لئے جائیں گے۔ حکیم خاندان کی علمی وجاہت ، سیاسی خدمات اورایثاروقربانی کی طویل تاریخ کے پیش نظر اُسے عراقی عوام میں جواحترام اوراعتماد حاصل ہے اُس کی بنا پر مجلس اعلیٰ کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس خاندان کے کسی لائق فرزند کو سید عبدالعزیز الحکیم مرحوم کی جانشینی کے لئے منتخب کرے۔

  2. #2
    Gr8^Masood's Avatar
    Gr8^Masood is offline Senior Member+
    Last Online
    18th September 2013 @ 10:50 AM
    Join Date
    23 Jul 2009
    Location
    Khi
    Age
    39
    Gender
    Male
    Posts
    42,351
    Threads
    1398
    Credits
    970
    Thanked
    2855

    Default

    Bohat Afsoos Naak Khabar hai ...........!
    .......Qasim bhai esko Halat-e- Hazra mei move kare..........!

  3. #3
    M-Qasim's Avatar
    M-Qasim is offline Advance Member+
    Last Online
    7th September 2022 @ 07:41 PM
    Join Date
    22 Mar 2009
    Gender
    Male
    Posts
    33,351
    Threads
    915
    Credits
    1,718
    Thanked
    3391

    Default



    G Es Ko halat-e-hazra Mein Hi Post Karna Chahiye tha .. But Moved Now


Similar Threads

  1. Replies: 15
    Last Post: 2nd October 2015, 05:15 AM
  2. Replies: 114
    Last Post: 14th October 2012, 03:52 AM
  3. Replies: 1
    Last Post: 6th November 2011, 10:39 AM
  4. Replies: 2
    Last Post: 31st May 2010, 12:57 PM
  5. Replies: 1
    Last Post: 18th January 2010, 03:18 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •