کہہ دو یہ اس سے میرے دل میں رہا کرے
کہہ دو یہ اس سے میرے دل میں رہا کرے
نہ اشک بن کے چشم تر سے بہا کرے
کہتا ہے ہر کسی سے تو جلتا ہے میرا دل
جو بھی ہو دل میں اس کے ہم سے کہا کرے
سمجھا جسے بھی اپنا ٹوٹا وہیں پہ دل
دل خوش فہم نہ ایسی حرکت کیا کرے
بے وفائی کرنا اس سنگدل کی فطرت
اپنے روش سے ہٹ کر وہ کیسے وفا کرے
اب وہ نہیں ملے گا چاہا جسے بھی تو نے
نادان دل سے کہہ دے نہ آہیں بھرا کرے
دل دھڑکنوں سے خالی ، مانگے ملے نہ پیار
اس شہر میں تو آ کر نہ کوئی صدا کرے
یہاں ہر قدم پہ دشمن کوئی بنے نہ اپنا
دل ناسمجھ سے کہہ دے سنبھل کر رہا کرے
کبھی حسرت کوئے جاناں تو تمنائے وصل یار
دل سے کہو نہ اتنی حسرت کیا کرے
اس کا اداس چہرہ کرتا ہے سوگوار
ہنس کر ملے وہ ہم سے جب بھی ملا کرے
اس کے ستم اپنی جگہ رنجش کے باوجود
دل اس کی چاہتوں کی ہر پل دعا کرے
اس سے بچھڑنا دل پر جیسے قیامتیں
آئے نہ زندگی میں قیامت خدا کرے
Bookmarks