اعتماد کی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے نہ کہ انسانی مشورے:
قال قتادۃ امر اللہ تعالیٰ نبیہ علیہ السلام اذا عزم علی امر ان یمضی فیہ ویتوکل علی اللہ لا علی مشاورتھم۔(قرطبی)
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جب آپ کسی کام کا عزم کرلیں تو وہ کر گزریں اورتوکل اللہ تعالیٰ پر کریں نہ کہ ان کے مشورہ پر۔ (یعنی مشورہ اچھی چیز ہے مگر وہ بھی سبب کے درجہ میں ہے اس لئے اصل بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو)
(١٢) مشورہ کے بارے میں چند اقوا ل۔
٭قال ابن عطیۃ: والشوریٰ من قواعد الشریعۃ وعزائم الاحکام من لا یستشیر اہل العلم والدین فعزلہ واجب ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشورہ شریعت کی بنیادوں اوراھم احکامات میں سے ہے پس جو حاکم اہل علم اور علم دین سے مشورہ نہ کرتاہو اسے معزول کردینا واجب ہے۔
٭ وکان یقال ماندم من استشار۔یعنی کہاجاتاتھا کہ جو مشورہ کرتاہے اسے پچھتانا نہیں پڑتا۔
٭ وکان یقال من أ عجب برایہ ضل۔اورکہا جا تا تھا کہ جسے اپنی رائے پر عجب ہو وہ گمراہ ہوجاتا ہے۔
٭وقال بعضھم شاور من جرب الامور ،فانہ یعطیک من رأیہ ماوقع علیہ غالیا وانت تأخذہ مجانا۔بعض بزرگوں کا قول ہے کہ تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں ایسی رائے مفت دے دے گا جس تک وہ بہت قیمت خرچ کر کے پہنچا ہوگا۔
٭ قال البخاری رحمہ اللہ وکانت الائمۃبعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یستشیرون الامناء من اہل العلم فی الامور المباحۃ لیا خذواباسھلھا۔
٭وقال سفیا ن الثوری :لیکن اہل مشور تک اہل التقویٰ والامانۃ ومن یخشی اللہ تعالیٰ۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمہارے اہل مشورہ تقویٰ والے امانت دا ر اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے لوگ ہونے چاہئیں۔یہ تمام اقوال امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں نقل فرمائے ہیں۔
امیر کی صفات
اس آیت مبارکہ سے امیر کی درج ذیل صفات معلوم ہوئیں۔
(١) نرم دل اوراچھے اخلاق والا ہو۔
(٢) اپنے رفقاء کو ( شرعی حدود میں رہتے ہوئے )معاف کرنے والا ہو۔
(٣) اپنی جماعت اوررفقاء کے لئے استغفار کرتاہو۔ (اشارۃً معلوم ہو ا کہ خود اپنے لئے بھی کثرت سے توبہ استغفار کا عادی ہو)
(٤) جماعت کا نظام مشورہ سے چلاتاہو۔
(٥) صاحب عزم یعنی پختہ عزم کا مالک ہو۔
(٦) توکل صرف اللہ تعالیٰ پر کرتاہو۔(و اللہ اعلم بالصواب)۔
Bookmarks