امریکہ پر حملے کی سازش،3 افغان گرفتار
امریکی وزارتِ عدل کے مطابق امریکہ پر مبیّنہ حملے کی سازش کرنے کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار کیے جانے والوں ميں دو افراد افغانستان کے شہری ہیں۔ نجیب اللہ اور ان کے والد کو کلاراڈو میں ڈینور سے گرفتار کیا گیا جبکہ تیسرا شخص، جس کا تعلق بھی افغانستان سے ہے، نیویارک سے حراست میں لیا گیا ہے۔ وزارت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے ' ان افراد کو بین الاقوامی اور اندرونی دہشت گردی سے متعلق ایک معاملے میں جھوٹے بیانات دینے کے سلسلے ميں گرفتار کیا گیا ہے'۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ان گرفتاریوں کے سلسلے ميں عدالت میں دیے گئے بیان میں کہا ہے ' امریکہ میں جدید ٹیکنالوجی والے دھماکہ خیز مادے کے ذریعے ایک حملے کی سازش کے سلسلے میں امریکہ، پاکستان اور دیگر مقامات پر ایف بی آئی تفتیش کر رہی تھی اور لوگوں سے پوچھ گچھ بھی کر رہی تھی۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے یہ اطلاعات آئی تھیں کہ تفتیش نیویارک میں کسی عام مقام پر ایک ممکنہ حملے پر مرکوز تھی۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ ممکنہ حملے کے بارے ميں ہم یہ کچھ نہیں پتا ہے کہ وہ کہاں ہوگا ، کب ہوگا اور اس میں کسے نشانہ بنایا جائے گا۔ قومی سلامتی کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ڈیوڈ کرس کے مطابق 'یہ گرفتاریاں تیز رفتار تحقیقات کا ایک حصہ ہیں۔' خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت میں انہوں نے کہا 'یہ ایک اہم بات ہے کہ ممکنہ حملے کے بارے ميں ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہوگا، کب ہوگا اور اس میں کسے نشانہ بنایا جائے گا؟ جن دو افراد کو ڈین ور سے گرفتار کیا گیا ہے ان ميں ایک نجیب اللہ زازی اور ان کے والد شامل ہیں۔ نجیب اللہ زازی کو تفتیشی اہلکاروں نے تین روز کی پوچھ گچھ کے بعدگرفتار کیا ہے۔ اس سے قبل پچھلے ہفتے اہلکاروں نے زازی کے گھر کی تلاشی بھی لی تھی ۔ چوبیس سالہ زازی ہوائی اڈے پر شٹل ڈرائیور ہیں۔ زازی اور ان کے تریپن سالہ والد محمد زازی پیر کو کلاراڈو کی عدالت ميں پیش کیے جائيں گے۔ وہيں نیویارک میں گرفتار کیے گئے احمد وائس افضل بھی اسی روز نیویارک کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ سنیچر کو ڈینور پوسٹ اخبار کو دیے ایک ٹیلی فونک انٹرویو ميں نجیب اللہ زازی نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا جس ميں کہا گیا تھا کہ انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کا تعلق القاعدہ یا کسی اور شدت پسند تنظیم سے ہے۔ مسٹر زازی کا کہنا تھا 'یہ بالکل سچ نہیں ہے۔ میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، یہ سب بے بنیاد باتیں میڈیا کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔'
Bookmarks