اسلامی ریاست کے بغیر جہاد؟
اب ہم آ پ کے سوال کے دوسرے حصے کا جائزہ لیتے ہیں آپ نے لکھا ہے کہ کسی نبی نے بھی جہاد بالسیف اس وقت تک شروع نہیں کیا جب تک انہوںنے اپنی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا- جب کہ ہمارے پاس ابھی کسی اسلامی ریاست ریاست کا وجود نہیں ہے- پہلے انبیائ اور ان کی امتوں کے مکمل حالات ہمیں معلوم نہیں-ان کے متعلق کسی بات کا دعوی کرنا بلا دلیل ہے اور اگر معلوم ہوں بھی تو ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں کسی اور پیغمبر کی نہیں- ہمارے لئے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے- اس لئے میں اسی کو سامنے رکھ کر بات کروں گا-
اس بات میں کوئی شک نہیںکہ اسلام کے مکمل احکام تقریباتئیس برس میں اترے- جتنے احکام اترتے مسلمان ان پر عمل کرتے- ان میں سے کچھ احکام مکہ مکرمہ میں اترے- اور کچھ مدینہ میں- مگر دین مکمل ہونے کے بعد اب تمام احکام پر قیامت تک کے لئے عمل لازم ہے- اس میں وہ استثنائ تو ہو سکتاہے جو اللہ تعالی نے خود فرمایاہے کہ (بقرہ - 286)
اللہ تعالی کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق اور اللہ تعالی نے فرمایا- (تغابن 16)
اللہ تعالی سے ڈرو جتنی تم میں طاقت ہے-
مگر یہ استثنائ نہیں ہو سکتا کہ فلاں فلاں چیزیں چونکہ اسلامی ریاست وجو دمیں آنے کے بعد فرض ہوئیں اس لئے وہ اس وقت فرض نہیں- اگرآپ کا فلسفہ عمل میں لایاجائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اذان اقامت اور نماز باجماعت اس وقت تک فرض نہیں ہوئی جب تک اسلامی ریاست وجود میں نہیں آئی-
اموال میں ڈھائی فیصد زکوة ‘ مواشی میںایک خاص نصاب کے مطابق صدقہ اور زمین کی آمدنی سے عشر اس وقت تک فرض نہیں جب تک اسلامی ریاست وجود میں نہیں آتی-
رمضان کے روزے اس وقت تک فرض نہیں ہوئے جب تک اسلامی ریاست کے قیام کو ڈیڑھ سال نہیں گزرا- شراب اس وقت تک حرام نہیں ہوئی جب تک اسلامی ریاست کے قیام کے بعد چھٹا یا آٹھوا سال نہیں ہوا- (فتح الباری کتاب الاشربہ)
متعہ کی حرمت کا واضح اعلان آپ نے خیبر کے موقع پر اس وقت کیا جب اسلامی ریاست کے قیام کو چھ برس گزر چکے تھے- اسی طرح گھریلو گدھے کی حرمت کا اعلان بھی اسی وقت ہوا- (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
سود کی حرمت کی آیات اس وقت تک نہیں اتریں جب تک اسلامی ریاست ہونے کے بعد اسلام کے دوسرے تمام احکام مکمل نہیں ہوئے- یہ تقریبا دس ہجری کی بات ہے- صحیح بخاری میں ابن عباس فرماتے ہیں-
[بحوالہ تفسیر ابن کثیر]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے آخر میں جو آیت اتری سود کی آیات تھی-
آپ کے کہنے کے مطابق ہمارے پاس ابھی کسی اسلامی ریاست کا وجود نہیں تو نتیجہ صاف ظاہرہے کہ جب تک اسلامی ریاست وجود میں نہیں آتی اس وقت تک اذان اقامت اور باجماعت نماز فرض نہیں-
اسلامی ریاست کے قیام تک اس نصاب کے مطابق زکوة بھی فرض نہیں ہے-
رمضان کے روزے بھی اسلامی ریاست قائم ہونے تک فرض نہیں-
اسلامی ریاست کے قیام تک شراب بھی حلال ہے اور اس پر کوئی حد نہیں-
متعہ سے لطف انددز ہونے کی گنجائش بھی اسلامی ریاست کے قیام تک موجو دہے اور اس وقت تک گدھوں کا گوشت بھی کھایاجا سکتا ہے-
اور جب تک اسلامی ریاست وجود میں نہیں آتی سود کا لین دین بھی جائز ہے-
اور آپ کے فلسفے کو اگر مزید آگے بڑھایا جائے تو اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی کم از کم چھ سال تک شراب حلال رہے گی- اتنی ہی مدت تک متعہ کی گنجائش باقی رہے گی- گدھے کا گوشت حلال رہے گا اور تقریبا دس سال تک سود جائز رہے گا- زنا چوری بہتان وغیرہ کی حدیث بھی اسلامی ریاست کے قیام کے اتنے سال بعد شروع ہوں گی جتنے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلامی ریاست قائم کرنے کے بعد شروع ہوئیں-
تقریبا یہی بات وہ حضرات کہتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ جب تک معاشر ے کی اخلاقی حالت درست نہ ہو زناکی حد لگاناظلم ہے جبک تک معاشرے میں غربت اور معاشی ناہمواری ختم نہ ہو چور کا ہاتھ کاٹنا زیادتی ہے-
نہیں میرے بھائی یہ فلسفہ درست نہیں- کوئی چیز اسلامی ریاست قائم ہونے سے پہلے فرض ہوئی یا بعد میں اب وہ قیامت تک کے لئے فرض ہے اور جونہی اس فرض کو ادا کرنے کی استطاعت ہو فورا اسے ادا کرنا ہوگا اسی طرح کوئی چیزاسلامی قائم ہونے سے پہلے حرام ہوئی یا بعد میں ‘ اب قیامت تک کے لئے حرام ہے-
جہاد کا بھی یہی معاملہ ہے پہلے اس کی اجازت ہی نہ تھی حکم تھا کہ ہاتھ روک کر رکھو مدینہ جاکر پہلے لڑنے کی اجازت ہوئی پھر لڑنا فرض کردیا گیا- اب یہ قیامت تک جاری رہے گا-
اس فریضہ سے جان چھڑانے والے کئی عذر پیش کرتے ہیں- کبھی کہتے ہیں اسلامی ریاست کا قیامت ہونے تک جہاد بالسیف جائز نہیں-
کبھی کہتے ہیں خلیفہ کے بغیر جہاد جائز نہیں-
کبھی کہتے ہیں تعداد کم ہو تو جہاد جائز نہیں-
لیکن ان میں سے کوئی عذر درست نہیں
جہاد فرض ہوجانے کے بعد قیامت تک جاری ہے
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو-رواہ مسلم مشکوة کتاب الجہاد]
عربی لغت کی معتبر کتاب القاموس میں لکھا ہے-
وَالع±صبَة± مِنَ الرِّجَالِ وَالخَیلِ وَالطَّیرِ مَا بَینَ العَشرَةِ اِلَی الاَربَعِینَ کَالعِصَابَةِ
یعنی عصبہ آدمیوں گھوڑوں یا پرندوں کی وہ جماعت ہے جو دس سے چالیس تک ہو عصابہ کا بھی یہی معنی ہے-
کوئی اسلامی ریاست موجود ہو یا موجود نہ ہو ہر حال میں جہاد جاری رہے گا-
جہاد کے لئے مسلمانوں کی بہت بڑی فوج موجود ہویا دس بیس کاچھوٹا سا گروہ یہ فریضہ دونوں صورتوں میں جاری رہے گا- اگر جہاد کے لئے اسلامی ریاست کا وجود ضروری قرار دیا جائے یا خلیفہ کا ہونا ضروری ہو تو اس وقت دنیا میں خلیفہ موجود نہیں اور آپ کے کہنے کے مطابق ہمارے پاس ابھی کسی اسلامی ریاست کا وجود بھی نہیں تو نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ آپ کے مطابق اس وقت جہاد ہو ہی نہیں سکتا- فرمایئے اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو سچا سمجھا جائے یا کچھ اور اسلامی ریاست اور خلیفہ کا وجود تو دور کی بات ہے اگر کوئی بھی ساتھ نہ دے تو اکیلا ہی لڑ سکتا ہے- اللہ نے فرمایا: (النسائ 84)
پس لڑائی کر اللہ کی راہ میں نہیں تکلیف دی جاتی تجھے مگر تیری جان کی اور مومنوں کو رغبت دلا-
6 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے دس سال کے لئے صلح کرلی- صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ مکہ کا کوئی آدمی مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جائے گا تو آپ اسے واپس کردیں گے- صلح کی شرائط طے کرکے آپ مدینہ واپس تشریف لے آئے قریش مکہ کا ایک آدمی ابوبصیر جو مسلمان ہو چکا تھا آپ کے پاس مدینہ میں آیا- مکہ والوں نے اسے واپس لانے کے لئے دو آدمی بھیجے آپ نے اسے ان کے حوالے کردیا وہ دونوں اسے ساتھ لے کر مدینہ چل پڑے ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اترے اور کھجوریں کھانے لگے- ابوبصیر نے ان میں سے ایک سے کہا اے فلاں اللہ کی قسم مجھے تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے- ذرا دینا میں دیکھوں تو سہی- اس نے پکڑادی- ابوبصیر نے اسے ماری- یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا- دوسرا بھاگا یہاں تک کہ مدینہ آ گیا دوڑتا ہوا مسجد میں داخل ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کوئی خوف دیکھا ہے- اس نے کہا اللہ کی قسم میرا ساتھی قتل کردیا گیا او رمیں بھی قتل ہونے والا ہوں- ابوبصیر (بھی) آپ کے پاس آپہنچا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی ماں کے لئے ویل ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ہو تو یہ یہ لڑائی بھڑکا دینے والا ہے- جب اس نے یہ بات سنی تو سمجھ لیا کہ آپ اسے ان کی طرف واپس کردیں گے- وہ وہاں سے نکلا اور سمندر کے کنارے پر آ گیا (ادھر مکہ سے) ابوجندل بن سہیل جان چھڑا کر نکلا اور ابوبصیر سے آملا- اب قریش میں سے جو بھی مسلمان ہوتا ابوبصیر سے جا ملتا یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت (عصابہ) اکٹھی ہوگئی اللہ کی قسم قریش کے جس قافلے کے متعلق وہ سنتے کہ وہ شام کے لئے نکلا ہے اس کی راہ پر جا پڑتے انہیں قتل کردیتے اور ان کے مال چھین لیتے تو قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ آپ ان کی طرف پیغام بھیجیں کہ جو آپ کے پاس آجائے اسے امن ہے- چنانچہ آپ نے ان کی طرف پیغام بھیج دیا-
[صحیح بخاری بحوالہ مشکوة کتاب الصلح]
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
1- ابوبصیر نے اکیلے ہی کفار سے لڑائی کاآغاز کردیا کسی ساتھی کا انتظار نہیں کیا بعد میں چند ساتھیوں کے ساتھ گوریلا کارروائیا ں جاری رکھیں اور اس کا یہ عمل اللہ کے حکم کے مطابق تھا۔
اس کی پہلی کارروائی کفار سے اپنی جان بچانے کے لئے یعنی دفاعی تھی بعد میں اس نے کفار پر حملہ بھی کئے یعنی ہجومی جنگ بھی کی-
2- ابوبصیر کی یہ کارروائیاں کسی خلیفہ کی زیر امارت نہ تھی کی چو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسے واپس کرنے کا عہد کرچکے تھے او رآپ نے واپس کر بھی دیا تھا- پہلی کارروائی میں اپنا امیر وہ خود تھا اور باعد کی کارروائیاں میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کا امیر تھا-
3- اپنی کارروائیوں کےلئے اس نے کسی اسلامی ریاست کو اپنا ٹھکانہ نہیں بنایاپہلی اسلامی ریاست صلح کی وجہ سے اس کی مدد سے انکار کر چکی تھیں اور اس کی اپنی اسلامی ریاست ابھی وجود میں نہیں آتی تھی- مگر وہ اس کے باوجود لڑتا رہا یہاں تک کہ اپنی جان کفار سے بچانے میں ہی کامیاب نہیں ہوا بلکہ دوسرے مظلوم مسلمانوں کی جائے پناہ بھی بنا اور کفار کو اس قدر ذلیل کیا کہ وہ خو دہی اپنی ظالمانہ شرط سے دستبردار ہوگئے-
4- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی کسی کارروائی کی مذمت نہیں کی بلکہ خاموش رہ کر اس کی تائید فرمائی- افسوس کہ پچھلے دنوں ایک فلسفی بزرگ نے ابوبصیر کے اتنے عظیم عمل کو مشاغبہ شوروغل قرار دے کر اسے بے وقعت کرنے کی کوشش کی-
خلاصہ یہ کہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ کفار سے لڑائی کے لئے کوئی بھی شرک نہیں خصوصا جب وہ ان سے اپنی جان بچانے کے لئے ہو- نہ تعداد کی شرط ہے نہ اسلامی ریاست کی اور نہ خلیفہ کے وجود کی اگر امیر موجود نہ ہو تو دفاع کے وقت ہر شخص اپنا امیر خود ہوتا ہے اور جو شخص یا گروہ شرطیں پوری ہونے کا انتظار کرتا رہتا ہے - وہ اپنی آزادی عزت اور جان ومال سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے-
اسلامی اور خلیفہ جہاد سے وجود میں آتے ہیں
محترم 656ھ میں تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور خلفیة المسلمین معتصم باللہ کو قتل کردیا- رجب 659 ھ تک ساڑھے سات سال مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں تھا- اگر وہ اس دوران تاتاریوں سے جہاد ترک کردیتے تو دنیا سے مسلمانوں کا نام ونشان تک مٹ جاتا مگر انہوں نے جیسے بھی ہو سکتا الگ الگ ٹکڑیوں میں بھی ان کا مقابلہ جاری رکھا- یہاں تک کہ انہیں پے در پے شکستیں دے کر اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت میں کامیاب ہوگئے اور دوبارہ مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تاتاریوں سے لڑنے والے رسول اللہ کی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا جو ان کی مخالفت کرے اور جو ان کی مدد چھوڑ دے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا -یہاں تک کہ قیامت قائم ہو-
[مجموعہ فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ص 416 و ص 531 ج 2]
حقیقت یہ ہے کہ جب خلیفہ کا وجود نہ ہو اور اللہ نہ کرے اسلامی ریاستیں بھی سرے سے ختم ہوجائیں تو بجائے اس کے کہ جہاد ختم سمجھا جائے جہادی ہی وہ بابرکت چیزہے جس سے دوبارہ خلیفہ اور اسلامی ریاست کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے-(جاری ہے)
[/SIZE][/SIZE][/RIGHT]
Bookmarks