تیسرا بہانہ

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جنگ بدر سے پہلے کی بات ہے‘ جنگ بدر کے بعد ایسا نہیں ہوا- حالانکہ صلحہ حدیبیہ کا جو واقعہ ہوا ا س کے معاہدے میں موجود شرائط میں ایک شق یہ تھی کہ جو شخص چاہے مسلمانوں کا حلیف بن جائے اور جو شخص چاہے قریش کا حلیف بن جائے- چنانچہ بنو خزاعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف اور بنو بکر قریش کفار کے حلیف بن گئے اب بنو خزاعہ پر بنو بکرنے حملہ کردیا تو قریشیوں نے ان کا ساتھ دیا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بدلہ لینے کےلئے چڑھائی کردی- مسنداحمد حدیث ہے کہ اس وقت بنو خزاعہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں شامل تھے- بنو خزاعہ جو ابھی کفر پہ تھے‘ کوئی کوئی آدمی مسلمان ہوا تھا‘ باقی سب کافر ہی تھے‘ تبھی تو حلیف تھے- اگر مسلمان ہوتے تو پھر حلیف بننے کی کیا ضرورت تھی؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنو خزاعہ بھی شامل تھے-

مسند احمد (جلد نمبر 1 ص 179) میں عبداللہ بن عامر سے حدیث ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو اعلان کیا کہ ہتھیار روک لو‘ کوئی ہتھیار استعامل نہ کرے- ہان بنو خزاعہ کو اجازت ہے کہ بنو بکر کا آدمی جہاں ملتا ہے ‘ اس کا سر اڑاتا چلا جائے‘ کیونکہ انہوں نے غداری اور عہد شکنی کی ہے- جب عصر کے وقت ہوا تو فرمایا بس بھئی اب بنو خزاعہ کے دل ٹھنڈے ہوچکے ہیں - اب بنو خزاعہ کو بھی اجازت نہیں کہ وہ بنو بکر پر کوئی حملہ کریں یا ان کو قتل کریں-

غور فرمائیں کہ یہ واقعہ کس وقت کا ہے- جنگ بدر کا یا جنگ بدر کے بعد کا؟ صاف ظاہ رہے جنگ بدر کے بعد کا ہے- ثابت ہوا اس وقت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے مدد لی-

کشمیر کی بجائے پاکستان میں جہاد کیوں نہیں کیاجاتا چوتھا بہانہ

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آپ کیوں نہیں لڑتے؟ تو لوگ کشمیر میں لڑ رہے ہو- حکومت پاکستان تمہارا تعاون کر رہی ہے- یہ طاغو ت ہے- یہ کفر کے پشتیباں ہیں- ملک کے اندر کفرو وشرک پھیلا ہواہے- تم یہاں جہاد کیوںنہیںکرتے کشمیر میںجہاد زیادہ (اہم ) ہے- کیا پاکتان میں جہاد (کی ضرورت) نہیں ہے؟ یہ بہت سے اعتراضات کا ایک ملغوبہ ہے- اسے بھی اچھی طرح سمجھیں-

میرے بھائیو اس بات کو ذرا تفصیل سے سمجھئے کافر کئی قسم کے ہیں- ایک وہ کافر ہے جس نے کلمہ ہی نہیں پڑھا‘ ایک وہ کافر ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا ہے- اب ان دونوں کا فرق ہے جس نے کلمہ نہی ںپڑھا‘ وہ ہم سے اس لئے لڑ اتا ہے کہ ہم کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں- کافر اسی بنا پر ہم سے لڑتاہے- جو کلمہ پڑھنے والا ہے‘ وہ اس وجہ سے کبھی بھی ہم سے نہیں لڑے گا کہ ہم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں- وہ تو کلمہ پڑھنے کی وجہ سے ہمارا بھائی بن گیا‘ ہمارے دین میں داخل ہوگیا ‘ اب اگر وہ گمراہ ہے‘ ہم اس کو سمجھائیں گے‘ دعوت دیں گے‘ جب تک وہ ہم پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا‘ ہم اس پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے- ہم اس کو گمراہ سمجھیں گے‘ غلط سمجھیں گے‘ اس کو یہ بھی کہیں گے کہ یہ کفر کا ‘ شرک کا مرتکب ہوا ہے- لیکن ہم اس سے جنگ نہیں کریںگے- کیونکہ اگر ہم کلمہ پڑھنے والوں سے جنگ کریں گے تو کلمے کا انکا رکرنے والے سے ہم جنگ نہیں کر سکتے-

صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم کر رہے ہیں- ایک شخص آتا ہے کہتا ہے کہ ((اِعدِل یَا م±حَمَّد± صلی اللہ علیہ وسلم )) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کر- فتح الباری میں اور کئی روایتیں اکٹھی کرکے ایسی کئی نا مناسب الفاظ نقل کئے گئے ہیں- مثلا اس نے کہا ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم تو نے انصاف کیا ہی نہیں“ کیا یہ شخص مسلمان ہے؟ لیکن کلمہ گو ہے- بعض نے کہا یا رسول اللہ اجازت دیجئے ‘ اس کی گردن اڑادیں- فرمایا چھوڑ دو- لوگ کہیںگے- محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتاہے- اپنے ساتھیوں کو اگر ہم قتل کرنے لگیں تو اپنے دشمنوں کو کیسے قتل کریں گے؟-

کئی لوگ اس پر الجھتے ہیں کہ تمہارے نزدیک پھرہر شخص ہی مسلما ن ہے خواہ قبر پرست ہو خواہ صحابہ سے عداوت رکھتا ہو‘ تم سب کو ٹھیک سمجھتے ہو- بھئی ہم کب ٹھیک سمجھتے ہیں ہم کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے دشمنی رکھنا کفر ہے- اللہ کے ساتھ غیروں کو بھی حاجت روا سمجھناشرک کا عقیدہ ہے- ہمیں اس میں کوئی شک نہیں سیدھی صاف بات ہے- لیکن وہ کلمہ گو ہیں کلمہ پڑھ رہے ہیں ہم ان کے سامنے قرآن پیش کریں تو وہ یہ نہیں کہتے جا? ہم قرآن نہیں مانتے ممکن ہے ان کے مولوی ایسی کوئی بات کہہ دیں لیکن وہ بھی لوگون کے سامنے یہ بات کبھی نہیں کہہ سکتے-

سیدنا علی کے مقابلے میں خارجی نکلے- انہوں نے کہا علی رضی اللہ عنہ کافر‘ عثمان رضی اللہ عنہ بھی کافر ہے- جبکہ علی رضی اللہ عنہ کا جنتی ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا منکر کافر ہوتا یاکہ نہیں ہوتا‘؟ تو وہ خارجی بھی کافر ہی تھے لیکن کلمہ گو کافر تھے- اس لئے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاد رکھو کہ تمہارے وظیفے تمہیں ملیں گے‘ مال غنیمت سے حصہ ملے گا‘ مسجدوں میں تم آ? ہم تمہیں نہیں روکیں گے‘ ہم اگر تم شرارت کرو گے پھر ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے- پھر جب انہوں نے شرارت کی‘ سیدنا خباب رضی اللہ اور ان کی لونڈی کو قتل کیا تو سیدناعلی نے کہا کہ وہ آدمی ہمارے حوالے کردو جس نے ان کو قتل کیا ہے- وہ کہنے لگے ہم سبھی (قاتل ہیں) فرمایاپھر لڑنے کےلئے تیار ہوجا?- سب کو تہہ تیغ کردیا گیا- صرف دس آدمی اس جماعت میں سے بچے-

اگر کافر بھی صلح کے معاہدہ کے ساتھ رہتے ہیں تو ہم ان کی صلح اور معاہدے کا احترام کریں گے- ایک ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں‘ صلح بھی ہماری ان سے ہے‘ تم کہتے ہو کیوں نہیں لڑتے؟ میرے بھائیو! ہمیں جو نصیحت کرتے ہو کلمہ گو لوگوں سے لڑنا درست ہے تو تم لڑ لونا- تم کیوں نہیں لڑتے؟ ہم تو چلو ایک میدان میں الجھے ہوئے ہیں- ایک محاذ ہم نے سنبھالا ہوا ہے- یہ محاذ بسم اللہ پڑھ کر تم سنبھالو- ہم اس کو علی وجہ البصیرت درست نہیں سمجھتے‘ بلکہ اس کو بالکل غلط سمجھتے ہیں کہ یہاں کلمہ گومسلمانوں کے ساتھ ہم جنگ شروع کردیں- ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم ان کو سمجھائیں- ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم نے ان تک قرآن پوری طرح سے نہیںپہنچایا- ہم نعروں میں مصروف ہیں- فلاں زندہ باد.... فلاں مردہ باد-

اگر حکومت مظلوموں کی مدد کرے تو ہمیں جہاد نہیں کرنا چاہئے- پانچواں بہانہ

کشمیر میں حکومت اگر ان مظلوموں کی مدد کرے تو کیا ہم اس لئے مدد چھوڑ دیں کہ حکومت پاکستان ان کی مدد کر رہی ہے- یہ کس قسم کی فضول بات کی جاتی ہے- حافظ سعید صاحب سے بھی ایک دفعہ ایک غیر ملکی مجاہد نے (اشکالات کا شکار ہوکر) بات کی- کہنے لگا کہ آپ تو طاغوت کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں- حافظ صاحب نے کہ اگر آپ کے گھر کوآگ لگ جائے‘ طاغوت کا فائربریگیڈ آپ کے گھر کی آگ بجھانے آجائے تو آپ نے جو ریت یا پانی کی بالٹی پکڑی ہوئی ہے‘ اسے اس لئے دور پھینک دیں گے کہ اس کام میں حکومت کیوں شریک ہوگئی ہے- آپ کیاں کریں گے؟ اللہ کی قسم وہ ایک لفظ بھی جواب میں نہ کہہ سکا-

ہمارے گھر کی آگ اگر حکومت بجھاتی ہے تو بجھانے دو- اس کی مدد کرو- اگر حکومت پاکستان ہندوستان کے ساتھ جنگ کرتی ہے اس بنائ پر کہ وہاں مسجدیں مسمار کی جا رہی ہیں‘ مسلمانوں کو ذبح کیاجا رہاہے‘ تو کی اہم حکومت کی اس لئے مدد نہ کریں گے کہ حکومت نے یہاں پورا اسلامی قانون نافذ نہیں کیا-جاری یے