اگر مجاہدین کارروائی کریں گے نتیجے میں ہندو عزتیں لوٹیں گے چھٹا بہانہ

اس کے علاوہ یہ افسوسناک اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مجاہدین کی وجہ سے کشمیر میں عزتیں لوٹی جا رہی ہیں- اگر مجاہد نہ جاتے تو مسلمان لڑکیوں کو کوئی کچھ نہ کہتا- مجاہدین کارروائی کرکے آجاتے ہیں- بعد میں کریک ڈا?ن ہوتا ہے- لڑکیوں کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں اور قتل وغارت ہوتی ہے-

میرے بھائیو! اسے کہتے ہیں ”مدعی سست گواہ چست“ اگر ایسی بات ہوتی تو لشکر طیبہ سے سب سے زیادہ دشمنی کشمیریوں کو ہوتی- کشمیری تو ان پر بچھے چلے جاتے ہیں- وہ لوگ اپنے فرزندوں سے وہ محبت نہیں کرتے جو وہ یہاں سے جانے والے مجاہدین سے کرتے ہیں- (مجلہ الدعوة کے صفحات اس پر گواہیں) میرے بھائیو! عزتیں لٹ سکتی ہیں- لیکن وہاں جہاں مجاہدین کی ہائیڈ (پناہ گاہ) نہیں ہے- جہاں جہاں پناہ گاہ موجود ہے‘ وہاں ظلم وستم تو ہو سکتا ہے‘ کریک ڈا?ن تو ہو سکتاہے.... لیکن عزت نہیںلوٹی جائے گی.... کیونکہ ہندو?ں کو پتہ ہے کہ عزت لوٹی نہیں اور مجاہدین کی طرف سے بدلہ فورا پور ا ہوا نہیں-

پہلے جہاد بالنفس پھر جہاد بالشیطان پھر جہاد بالدنیا

اگر ان میں کامیاب ہوجاﺅ تو پھر دشمن سے جہاد کرنا ساتوانہ بہانہ

بعض لوگ جہاد وقتال کے لئے بعض شراط عائد کرتے ہیں - کہتے ہیںکہ پہلے جہاد بالنفس کرو‘ پھر جہاد بالشیطان‘ پھر جہاد بلا دنیا پھر جاکر دشمن سے جہاد ہے- اس کا مطلب ہے کہ پہلے نفس سے جہاد کرو‘ اس میںکامیاب ہوجاﺅ تو پھر شیطان سے جہاد کرو‘ اس میں کامیاب ہوجا? تو پھر دنیا سے جہاد کرو‘ اس میں اگر کامیاب ہوجا? (جس میںکامیابی کا نہ علم ہو سکتاہے نہ کوئی اس کا دعوی کرسکتا ہے) تو پھر دشمن کے ساتھ جہاد شروع کردو-

اللہ کے بندو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ مسلمان ہوتے تھے‘ کیا آپ بھی جہاد کےلئے ان پر ایسی شروط وقیود لگاتے تھے- ہرگز نہیں.... فتح مکہ کو ہی لے لیجئے.... فتح مکہ کے موقع دس ہزار آدمی آئے تھے- گھنٹے آدھے گھنٹے میں بارہ ہزار مجاہد ہو گئے- ان کی نماز بھی ابھی درست نہیں کی‘ ان کا سب کچھ بھی اسی طرح تھا کہا چلو جنگ حنین میں چلو- اسی طرح ان کو ساتھ لے گئے- کب انہوں نے جہاد کیا تھا نفس کے ساتھ‘ کب جہاد کیا تھا شیطان کے ساتھ اور کب جہاد کیا تھا دنیا کے ساتھ ‘ کی قسم کی باتیں کرتے ہو؟

اصل بات یہ ہے کہ خانقاہی نظام پیدا ہی اس لئے کیا گیاہے کہ جہاد کو ختم کیا جاسکے- اسی لئے حکومت کے نصاب میں سب سے زیادہ تصوف پر زور دیاجاتا ہے وہی بات جس کی اقبال نشاندہی کر گیاہے کہ

مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

اللہ کے بندو جب لڑنے کا وقت ہے تم کہتے ہو نفس کے ساتھ جہاد کرتے رہو- یہ بات بھی اقبال ہی کہہ گیا ہے کہ

یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر ................ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

کہ اٹھنے کا وقت ہے تو کہتے ہیں سجدہ کرو- بھائی اٹھنے کا وقت ہے تو اٹھونا - جب سجدے کا وقت ہے تو سجدہ کرو‘ جب اٹھنے کا وقت ہے تو اٹھو-

یہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ جو لوگ جہاد میں جاتے ہیں‘ وہ نفس سے جہاد نہیں کرتے‘ وہ شیطان اور دنیا کے ساتھ جہاد کرتے اور جہاد صرف وہی کرتا ہے جو ایک کٹیا میںبیٹھ کر ”حق“ ”ہو“ کی ضربیں لگاتا رہتا ہے- یہ شیطان کا ان بھائیوں کو دھوکہ ہے- اللہ شاہد ہے کہ جس طرح میں نے معسکر ام القری میں جوانوں کو ہچکیاں باندھ باندھ کر روتے دیکھا‘ یہاں کسی کو نہیں دیکھا- سینکڑوں ایکڑ اراضی کے مالک نوجوان‘ ایم ایس سی کئے ہوئے نوجوان‘ ان کے دل میں بھی سب ارمان ہیں- خواہشیں‘ وراثت‘ جائیداد‘ آرام‘ آسائش ‘ عزو اقارب ‘ ماں باپ سب کچھ چھوڑ کر اپنی گردن کٹانے یہاں پہنچے ہوئے ہیں- کیا خیال ہے جہاد بالنفس کے بغیر ہی پہنچ گئے ہیں؟ جہاد بالشیطان اور دنیا کو ترک کئے بغیر پہنچے ہیں؟ (اور پھر ان مجاہدوں کی پوری پوری داڑھیاں‘ شلواریں ٹخنوں سے اوپر اور ایک ایک سنت کا اہتمام‘ کیا یہ نفس کے خلاف جہاد نہیں؟) اگر تم نے نفس سے جہاد کرناہے‘ شیطان سے مقابلہ کرناہے تو اس کے لئے جہاد کا میدان ہے-

نسائی میںایک حدیث ہے کہ ابن آدم اللہ کی راہ میں مسلمان ہونے کےلئے نکلنے لگا- شیطان نے کہا کیا کرتا ہے- اپنے باپ دادا کا دین چھوڑتا ہے- اس نے کہا جا‘ میں تیری بات نہیںمانتا- مسلمان ہوگیا اب ہجرت کرنے کی باری آئی گھر چھوڑنے کی منزل آئی شیطان درمیان آ گیا‘ کہنے لگا اللہ کے بندے ان گلیوں میں تو کھیلتا رہا‘ یہاں تیری مجلس‘ تیرے چاہنے والے ہیں- تو اس زمین وآسمان کو چھوڑے گا - تو بے وطن ہو جائے گا- اس نے کہا جا میں نے تیری بات نہیں ماننی- ابن آدم ہجرت کی منزل بھی طے کر گیا اب جہاد کے لئے نکلنے لگا- شیطان پھر راستے میں آ کر بیٹھ گیا اور کہتا ہے مارا جائے گا- نسائی مسند احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں تقتل مار اجائے گا- تیری بیوی سے دوسرے نکاح کرلیںگے- بچے تیرے یتیم ہوجائیںگے- اللہ کے رسول اللہ نے فرمایا‘ وہ شیطان کی بات کو ٹھکرا کر پھر نکل جاتا ہے-

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ جس نے یہ کام کیا اللہ کے ذمے ہے کہ وہ ا س کو جنت عطا فرمائے- اگر شہید ہوگیا‘ راستے میں بیمار ہوکر مر گیا‘ ڈوب گیا‘ راستے میں گر کر ‘ ایکسیڈنٹ ہوکر مر گیا پھراللہ جنت عطا فرمائے - تو بھائی ہمیں یہ سب بہانے چھوڑ کر بلاتاخیر جہاد کی راہ اپنانی چاہئے اگر جہاد کے لئے نکل نہیں سکتے تو کم از کم مجاہدین کی حمایت کریں- شیطان کے وسوسوں میں نہ آئیں- دنیا کے لئے اپنی عاقبت کو خراب نہ کریں- اللہ ہمیں ہدایت سے نوازے آمین-